طارق بن زیاد ؒ کا پورا نام طارق ؓ بن زیاد الیشی تھا ۔ کب اور کہاں پیدا ہوئے ، بچپن کا حال کیا تھا، جوانی کیسے گزری، تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ آپ قوم بر بر میں پیدا ہوئے، اسی میں پلے بڑھے جوان ہوئے ، بربری فوج میں کئی سال بھرتی رہے جس کی وجہ سے آپ نے کئی لڑائیاں مسلمانوں کے خلاف بھی لڑیں مگر اسلام سے پہلے کسی بھی لڑائی میں کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ کوئی فوج یا قوم مجاہدین ِاسلام کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں بر بر فوج کو شکست ہوئی تو طارق بن زیادگرفتار ہوئے اور غلام بنائے گئے ،غلام بن کر رہنے لگے تو مسلمانوں کی خوبیاں دیکھ کر اسلام قبول کیا، پھر اسلام کے فدائی بن گئے، خد اوند کریم نے طارق بن زیاد کو سرکش ، ظالم و جابر خونخوار اور خوف ناک قوم سے چھٹکارا دلاکر ان کا دل اسلام کے نور سے منور اور ضمیر اسلامی تعلمات سے روشن کیا ۔ مسلمان ہو کر اُن کے دل میں اسلام پھیلا نے کا جذبہ اور خدا کے نام کو بلند کر نے کا انقلابی داعیہ پیدا کیا۔ افریقہ کے مسلمان گورنر موسی بن نصیر نے ان کی جواں مرد صلاحیتوںکو دیکھا کہ یہ نوجوان کچھ بن کرد کھانے کے لئے تڑپ رہا ہے ا ور اس کے اندر کچھ اچھا کرنے کا جذبہ بدرجہ ٔاتم موجودہے تو آپ کو پڑھایا لکھایا، فنون سپہ گری کے گرسکھائے ا ور لکھا پڑھا کر آزاد کر دیا۔ آخر میں وہ مسلمانوں ایک زبردست باضمیر و نڈر آفیسرین کر موسیٰ کی فوج میں بھرتی ہوگئے ،جہاں ان کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے جو ہر کھلنے شروع ہوئے ۔کہتے ہیں کہ دینداری میں طارق بن زیادہ صحابہ کرام ؓ کے اسوہ پر عامل تھے ،جو جذبہ صحابہ کرام ؓکے پاک دلوں میں اسلام پھیلانے اور نور تو حید روشن کرنے کا تھا، وہی جذبہ ان کے دل میں مو جزن تھا کو انہیں سدا بے چین رکھتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں حضرت طارق کو خوج کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ اس سے قبل ہر مسلمان اسپین جانے کے لئے تیار تھا۔ جب موسیٰ نے لوگوں کا جذبہ دیکھا تو اُس نے سات ہزار بہادر چن کرا سپین جانے کا طارق کو حکم دے دیا۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ فوج ذرا زیادہ بھیجی جائے گی کیونکہ اسپین کا عیسائی بادشاہ بہت طاقت ور تھا لیکن موسیٰ بن نصیر نے صرف سات ہزار سپاہی منتخب کئے۔ اس پر لوگوں کو بڑی حیرت تھی ا ور مایوسی بھی کیونکہ اس فوج کے سپہ سالار طارق بن زیاد کو مقرر کیا گیا جو ایک نو مسلم بر بر اور آذاد شدہ غلام تھے مگر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کی قائدانہ صلاحیت تاڑ لی تھی اور انہیں ایک تجربہ کار،زیرک، بلندنظر، مستقل مزاج انسان پایاتھاا ور دیکھا تھا کہ باہمت ہونے کے علاوہ آپ میں ہمد دری اور آدمیت کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ۵؍ رجب سنہ ۹۲ ھ کو اسلامی لشکر اسپین میں اُس مقام پر اُترا جس کا نام قلعہ الا سد تھا ۔ مسلمانوں نے اس کا نام جبل الطارق رکھا ، علامہ نے ان کے بارے میں خوب فرمایا ہے ؎
یہ غاری یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑان کی ہیت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کش ور کشائی
طارق ؒنے وہاں قیام کیا اور گرد و نواح کے علاقہ کو زیر کرنا شروع کیا۔ چندہ ماہ کے بعد موسیٰ نے پانچ ہزار مزید فوج بھیجی۔ طارق ؒرمضان ۹۲ ھ میں دریا کے کنارے شاہِ اسپین راڈر ک کی ایک لاکھ فوج سے معرکہ آزماہوئے، پُر عزم جذبہ جہادشروع ہونے سے پہلے طارقؒ نے اپنی مختصر فوج کے سامنے حسب ذیل تقریر کی : بہادرو! میدان جنگ سے سفر کی اب کوئی صورت نہیں ہے، اس لئے صرف پا مردی میں نجات ہے۔ سرفروشو! میری تقلید کرو اور سب ایک جسم اور ایک جان ہو جائو، میں تو خود راڈرک کا دو بدو مقابلہ کروں گا اور اگر میں مارا جائوں تو تم ہمت نہ ہارنا ،میری جگہ کسی اور کو امیر مقرر کر کے جنگ جاری رکھنا ۔اگر تم نے بزدلی دکھائی تو بر باد ہو جائو گے ۔ خبر دار! ذلت پر راضی نہ ہونا اور اپنے آپ کو کسی قیمت پر بھی دشمن کے حوالہ نہ کرنا۔ امیر المومنین نے تمہیں اس ملک میں اعلائے کلمۃ الحق اور غلبۂ دین اسلام کے لئے بھیجا ہے ۔اس دوران راستے میں جنرل طارق ؒ نے خواب دیکھا کہ رسول خدا ﷺ فرما رہے ہیں کہ اسپین تمہارے ہی ہاتھوں فتح ہو گا ۔خواب کے ذریعے بشارت پانے کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی اور اپنی فتحِ مبین کا کامل یقین ہو گیا۔ ساحل اندلس پر اُتر تے ہی طارقؒ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ کشتیاں جس پر سوار ہو کر آئے تھے، جلاکرپھونک ڈالیں کہ واپسی اک سوال ہی نہ تھا، شہادت یافتح ان کا واحد نصب العین تھا۔ یہ حال دیکھ کر کاؤنٹ جو لین نے طارق ؒ سے کہا اس طرح سے تو ہماری موت یقینی ہو گئی اور اگر لر زیق نے ہمیں پسپا کر دیا تو ہم بھاگ بھی نہ سکیں گے ۔طارق ؒ نے مسکرا کر جواب دیا مسلمان بھی فرار ہو نے کے بارے میں نہیں سو چتا، جب ایک مسلمان میدان کارزار میں قدم رکھتا ہے تو غازی بن کر ہی واپس لوٹتا ہے ورنہ شہید ہو جانا ہے، کشتیاں اس لئے جلا دیں کہ میرے جانبازوں میں بھاگنے کا خیال ہی نہ پیدا ہو وہ سمجھ لیں ہم ہیں یا وہ اور ہم کو پورا یقین ہے کہ ہم لرزیق کی فوج کو پسپا کر دیں گے۔
فلور نڈا طارق ؒ کی طرف عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ جو ایک غیر مسلم کے لئے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگیاں جنگ کے شعلوں میں جھونک رہا تھا۔ طارق ؒ کے حکم پر خیمے نصب کئے گئے ،اس کے نزدیک کا ئونٹ جو لین اور فلو رنڈا کا خیمہ تھا، آفتاب غروب ہوا، تاریکی نے دن کے اُجالے کو ختم کر دیا ،اسلامی لشکر کھاپی کر اﷲ کے حضور میں سجدہ ریز ہو گیا۔ فلو رنڈا نے جب مسلمانوں کو ایک ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا ؎
آگیا عین لڑائی میں اگر و قت نماز
قبلہ رو ہو ئے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جنرل طارق ؒ نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا ۔ فوج تیار ہو ئی، لرزیق کا سپہ سالار تدمیر جو ایک باحوصلہ اور بہادر سپہ سالار تھا ،بہت جلد تیار ہو کر طارق ؒ کی طرف بڑھا، طارق کو اطلاع مل گئی تو انہوں نے بھی صف بندی کا حکم دے دیا اور اندلسی فوج کا انتظار کر نے لگا۔ کچھ دیر کے بعد دور سے کردہ غبار کے بادل اُٹھتے نظر آئے اسلامی فوج دیکھ کر مضطرب ہو گئی، غبار کے پردوں سے اندلسی فوج نمو دار ہوکر کچھ فاصلہ پر رُک گئی اورصف بندی کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی لشکر کی طرف بڑھنے لگی ۔ اندلسی فوج جو مسلم فوج سے تعدادمیںکئی گنازیادہ تھی ،مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی۔ اسلامی لشکر نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بے جگری کے ساتھ لڑ نا شروع کیا ، تیر اورتلوار یں چلنے لگے ، کشت و خون کا بازار گرم ہوا تو اندلسی فوج کو زبردست شکست ملی ۔ آخر میں ایک مقام پر جا کر تدمیر بھاگتے بھاگتے رُک گیا۔ کچھ دیر دم لینے کے بعد اس نے ایک قاصد لرزیق کے پاس خط دے کر بھیجا ، جس میں لکھا تھا، اے شہنشاہ !ہمارے ملک پر ایک غیر قوم نے حملہ کر دیا ہے، میں نے خوب مقابلہ کیا مگر قدم جم نہ سکے ضرورت ہے کہ آپ کو تشریف لائیں ۔یہ حملہ آور لوگ نہ جانے کہاں سے آگئے ہیں۔ زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اُترے ہیں ۔لرزیق نے خط پا کر فوجی کمک فراہم کرنی شروع کی اور کسی طرح ایک لاکھ سورمائوں کے ساتھ جبل طارق ؒ روانہ ہوا ،وہاں سے تدمیر بھی ساتھ مل گیا۔ اس میں بڑے بڑے سردار ،سپہ سالار، صوبہ دار، تجربہ کار لوگ شامل تھے۔ جو کوئی شخص اس فوج کے ٹھاٹ بھاٹ دیکھتا تھرتھرا تا تھا مگر دوسری طرف طارق ؒ اس لشکر جرا ر سے لڑنے کے لئے بڑھتے چلے آرہا تھا ،ہر مقام کو فتح حاصل کرتا اور اسلامی پرچم لہرا دیتا ۔ ۹؍ جولائی ۷۱۳ ھ کو وادی بکہ کے سریلشدونہ کے میدان مین جھیل لا جنڈاکے قریب دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہو گئی، ایک ہفتہ تک دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے خیمہ زن رہے اور پھر ایک دن جب آفتاب نے سر اُٹھا کر اپنے نور سے کائنات کو جگمگا یا شاہ لر زیق نے ا پنی کو صف بندی کا حکم دے دیا۔ طارق ؒ نے بھی اپنی فوج کو صف بندی کا حکم دے دیا۔اس کے بعد ایمانی جو ش سے بھرے انقلابی انداز میں تقریر کی جس میں اسلامی تاریخ کے سنہرے ا بواب کا خلاصہ پیش کیا ۔ جنرل طارقؒ کی تقریر سے مسلمان جانبار دں کے خون اور جوانمردی میںاور تیزی پیدا ہو گئی۔ عیسائی لشکر مجاہدین اسلام کی پیش قدمی کو مٹا نے کی پوری کوشش کر رہے تھے لیکن اسلام کا محافظ ومددگار جب خدا تھا تو ان کی کیا چلتی۔ اس شمع کو کون بجھا سکتا تھا جس کوخدا نے خود روشن کیا ہو۔ دھیرے دھیرے لرزیق کی فوج پسیا ہونے لگی، اس کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ا ور فوج سے بھاگ نکلا ۔ شاہی بھگوڑوں کا اسلامی لشکر نے کچھ دیر تک تعاقب کیا مگر ان کی بے اَمانی اور بد خواسی کی حالت دیکھ کر رحمدلی کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور تعاقب کر نا روک دیا۔ اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا جسے سن کر اندلسی فوج تھر تھرکا نپ اُٹھی اور رفتار تیز سے تیز تر کر دی۔ سارا میدان دشمن سپاہ کی لا شوں اور زخمیوں سے پڑا ہوا تھا، طارق نے کفن دفن کا ہی نہیں علاج ومعالجے اور مرہم پٹی کا حکم دے د یا ۔جنگ ختم ہو گئی، مسلمانوں کو فتح ِ مین حاصل ہوئی اور اس پر طارق ؒ کا آخری جملہ یہ تھا جب تک کہ اندلس میں اسلامی حکومت قائم نہ ہو جائے ہمارے ایمان و ضمیر کو چین نہ آئے گا ۔ تاریخ کا ناطق فتویٰ یہ ہے کہ حضرت طارق ؒ بن زیاد کی یہ آرزو اﷲ تعالیٰ نے بہت جلدپوری فرما دی۔
حضرت طارقؒ اسلام کے ان گنے چنے مجاہدوں اور سالاروں میں سے ایک ممتاز شخصیت ہیں جن پر تاریخ اسلام بجاطور فخر کرتی ہے اور جن کا نام نامی تاریخ اسلام کے اور اق میں سنہرے حروف میں درج ہیں ۔یہ وہی مجاہد اعظم ہیں جنہوں نے سر ہتھیلی پہ رکھ کر ایسے ایسے کا رنامے انجام دئے جن سے تاریخ اسلام کا رنگ اور رُخ بدل گیا۔ بہرحال حضرت طارق ؒ پہلے مسلمان سالار ہیں جن کے ہاتھوں اندلس (اسپین) فتح ہوا۔ ان کی فوجی کا میابی سے اسلام یورپ تک پہنچ کر اس سر زمین میںا پنے قدم جما سکا۔ اندلس کے باشندوں کا وہاں کے عیاش واوباش امراء، ظالم بادشاہوں، دنیوی لالچ کے پرستار متعصب یادریوں نے چین سے زندگی بسر کرنا دشوار کر رکھا تھا۔ حضرت طارق ؒ نے جب اندلس فتح کر لیا تو وہاں اسلام کے نور سے لوگ منور ہو گئے، انصاف اور رواداری کا بول بالا ہو ا، مظلوموں کی دارسی ہوئی ، لا چاروں کو چار ساز ملے ، محکوموں کی مصیبتیں ختم ہو ئیں ۔فتح اندلس سے پہلے وہاں کے باشندوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا مگر فتح اسلام کے بعد یہاںعزت و آبروکا جھنڈا شان ا ور وقار کے ساتھ سر بلند ہو ا اور پوری آبادی اخوت ومحبت کے ساتھ مل جل کر رہنے بسنے لگی ۔ اسلام کی برکت سے پہلی بار عوام کو آرام کی زندگی اور اطمینان کے روز وشب نصیب ہو گئے۔
رابطہ: ریشن ہار نواکدل 9906574009