واٹس ایپ پر کئی گروپس میں ادبی و شعری سلسلے چل رہے ہیں ۔لیکن 25 جولائی 2017 ہندوستانی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے ایک ادبی واٹس ایپ گروپ "منتہائے فکر" کے روحِ رواں مشاق شاعر جناب سید ذوالفقار نقوی نے ایک خوبصورت صوتی و تحریری طرحی مشاعرے کا اہتمام کیا۔
طرحی مصرع مرحوم زبیر رضوی کے شعری مجموعہ میں شامل ایک غزل سے منتخب کیا گیا تھا۔
بے شجرشہر میں گھر اس کاکہاں تک ڈھونڈیں
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہوگا
مشاعرے میں خطہ ٔ کشمیر سے لے کر سعودی عرب اور یورپ تک کے چنیدہ شعرا نے شرکت کی ۔ مشاعرے کی نظامت سید ذوالفقار نقوی صاحب کے حصے میں رہی، جنہوں نے اس فریضہ کو بخوبی نبھایا اور شعرا کے مختصر تعارف بھی پیش کیے ۔ اس بزم کی صدارت قطر میں مقیم جناب عتیق انظر نے فرمائی. ۔ مسندِ مہمانانِ خصوصی پر جناب اقبال خلش اور جناب ساجد حمید براجمان رہے جبکہ مہمانِ اعزاز کی نشست پر محترمہ فوزیہ رباب جلوہ افروز رہیں۔
مشاعرے کا آغاز حسب روایت تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔نعت کے لیے مہران شاہ صاحب کو دعوت دی گئی جنہوں نے محترم خورشید بسمل کا کلام اپنے مخصوص مترنم لہجے میں پیش کر کے سامعین سے داد سمیٹی۔
اس کے بعد باقاعدہ طرحی مشاعرے کا آغاز ہوا تو جناب سجاد بخاری کی طرحی نعت نے سماں باندھ دیا ۔
جس کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
ذکرِ اوصافِ نبی کرتا رہا کر گھر میں
تیرے صدقے سے ترا شہر منور ہو گا
غزل دور شروع ہوا تو جموں کشمیر سے نوجوان شاعر جناب بشیر مہتاب کی طرحی غزل نے ماحول میں رنگینی بھر دی۔
شعر دیکھیے۔
میں نہ رکھتا کبھی قدموں میں ترے سر اپنا
مجھ کو معلوم اگر ہوتا تو پتھر ہو گا
نقوی صاحب نے نظامت کی شمع جموں کشمیر سے ہی تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر سائل عمران کی طرف بڑھائی جنہوں نے مشاعرے کا رنگ جمانے میں حصہ ڈالا اور یوں گویا ہوئے۔
آئینہ رو ہے اگر دل تو حفاظت کیجے
کس کو معلوم ہے کس ہاتھ میں پتھر ہوگا
مشاعرہ کی کارروائی آگے بڑھی تو جموں کشمیر سے ہی ایک اور شاعر جناب شیخ ظہور کو دعوت دی گئی جنہوں نے اپنے طرحی کلام سے نوازا ۔
ان کے بعد جناب عظمت شاہ جعفری جن کا تعلق گورسائی پونچھ کشمیر سے ہے کو دعوتِ سخن دی گئی ۔جعفری صاحب کی خوبصورت غزل نے سامعین سے خوب داد سمیٹی ۔شعر دیکھیے
اس کو معلوم کہاں اب کے تھی قاتل پت جھڑ
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہو گا
اس کے بعد جناب عرفان عارف جو ایم اے ایم کالج جموں کشمیر میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں کی غزل نے مشاعرے کو چار چاند لگا دیے ۔ شعر ملاحظہ ہو ۔
میں بھی بن جائوں گا قطرے سے کسی دن دریا
منتظر میرا بھی اک روز سمندر ہو گا
وادی ٔ کشمیر جنت نظیر سے کہنہ مشق شاعر جناب میر شبیر کو دعوت کلام دی گئی جن کی غزل نے سامعین کی لطیف سماعتوں کو مزید لطافت بخشی۔
شعر لکھتا ہوں تو احساس ستاتا ہے مجھے
میرا محبوب تو لفظوں سے حسیں تر ہو گا
مشاعرے کی کارروائی جوں جوں آگے بڑھتی گئی سامعین کا ذوق بھی دوبالا ہوتا گیا ۔ نقوی صاحب نے اگلے شاعر کو دعوت کلام دی جن کا تعلق پونچھ کشمیر سے ہے، فارسی کے استاد سید تصدق شاہان شیرازی صاحب نے طرحی غزل پیش کر کے ماحول گرما دیا….
کربلا تجھ کو سمجھ آئے گی واعظ سن لے
تیرا کنبہ جو رسن بستہ کھلے سر ہو گا
ضلع پونچھ سے ہی مشاق شاعر جناب محتشم احتشام کو دعوت دی گئی جن کے مترنم لہجے نے سماعتوں کو مہکا دیا اور مشاعرے کو عروج پہ پہنچا دیا
اپنی پہچان اسے پہلے گنوانی ہو گی
پھر کہیں جاکے یہ قطرہ بھی سمندر ہوگا
اس کے بعد مشاعرے کی روحِ رواں یعنی ناظم مشاعرہ جناب سید ذوالفقار نقوی نے اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے خوبصورت غزل سے سے نوازا جس نے سامعین پر وجد طاری کر دیا ۔اشعار ملاحظہ ہوں۔
کل جہاں پھول بچھا کرتے تھے راہوں میں، وہیں
کیا پتہ تھا کہ ہر اک ہاتھ میں پتھر ہو گا
بال و پر کاٹ لئے جانے کا ماتم کیسا
روز یوں ہوتا تھا، ہوتا ہے، یہ اکثر ہو گا
اس کے بعد ریڈیو سرینگر کشمیر پر ابھرنے والی بھرپور آواز معروف شاعرہ رخسانہ جبین صاحبہ کو دعوت دی گئی جنہوں نے شفاف لہجے سے مرصع غزل سے نواز کر مشاعرے کی رنگینیوں میں اضافہ کردیا۔
پی لیا میں نے ترا زہر بھی آخر سورج
کیوں نہ ہرموئے بدن برگِ گل تر ہو گا
اس کے بعد معروف ادبی شخصیت چراغ حسن حسرت کے کے بھانجے بزرگ شاعر جناب محمود حسن محمود کو دعوت کلام دی گئی جن کی مرصع غزل نے مشاعرے میں نئی روح پھونک دی۔
پورے ہو ہوجائیں گے ہستی کے تقاضے لیکن
راز ہستی بڑی مشکل سے میسر ہوگا
مشاعرہ کشمیر جنت نظیر سے نکلتا ہوا علی گڑھ جا پہنچا اور معروف شاعر جناب وفا نقوی کے کلام سے سامعین کے لطف کو بام عروج تک لے لایا ۔ جناب وفا نقوی نے ایک مرصع غزل پیش کی ۔
ہے ضروری کہ رہیں لوگ بھی آکر اس میں
صرف دیوار و در و بام سے کب گھر ہوگا
برہانپور مدھیہ پردیش پردیش انڈیا سے تعلق رکھنے والے خوبرو شاعر جناب احمد جمیل کو دعوت دی گئی جنہوں نے شاندار غزل سے نوازا۔
جانے کب ختم ہو آوارہ مزاجی اپنی
جانے کب اپنے مقدر میں کوئی گھر ہوگا
اس کے کے بعد تھنا منڈی جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے صاحب کتاب مشاق شاعر جناب خورشید بسمل کو دعوت دی گئی جنہوں نے محفل کے لطف کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔
اب کسی طور بھی راحت نہیں ملنے والی
خواب آنکھوں میں مری , کانٹوں پہ بستر ہو گا
اس کے بعد بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر شعبہ عربی کے صدر معروف قلمکار اور شاعر ڈاکٹر شمس کمال انجم کے کلام نے مشاعرے کو تازگی بخشی ۔آپ سترہ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ عمدہ لکھتے ہیں ۔بے باک لہجہ ہے آپ خود دیکھ لیجیے۔
عدل و انصاف کا مفہوم سمجھ لے منصف
ورنہ قدرت کا طمانچہ تیرے منہ پر ہو گا
اب شمع مشاعرہ انڈیا کے سالہاسال سے ادبی شہر اعظم گڑھ کے معروف شاعر پروفیسر ارشد جمال صارم کی طرف بڑھائی گئی۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ نے مشاعرے کی بہترین غزلیات میں سرِ فہرست غزل سے نوازا۔
میں نہ کہتا تھا ہیں کچھ روز اڑانیں تیری
میں نہ کہتا تھا کہ تو جلد زمیں پر ہوگا
کھولی جائیں گی رگیں آج بھی کچھ پھولوں کی
آج بھی دستِ صبا میں کوئی نشتر ہوگا
اس کے بعد شمعِ مشاعرہ سر زمین سعودی عرب پر پہنچا دی گئی۔جہاں سے حلقہ فکر و فن تنظیم ریاض (سعودی عرب )کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر حنا عنبرین کو دعوت کلام دی گئی ۔خوبصورت لب ولہجہ کی شاعرہ کا کلام دیکھیے۔
ہاں مجھے خوف نہیں ہو نے نہ ہو نے کا کوئی
کہ جو ہوگا وہ مرے حق ہی میں بہتر ہوگا
سعودی عرب کے ہی مقدس شہر مکہ المکرمہ کے کے مضافات میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشاق شاعر جناب سید سجاد بخاری کو دعوت کلام دی گئی۔ ایک بہترین غزل سن کر سامعین نے دل کھول کر داد سے نوازا۔
اہلِ دل چھوڑ گئے صفحہ ہستی کو اگر
شہر ہو گا نہ کہیں دشت و سمندر ہو گا
ایک نقطہ بھی گوارا نہیں جس کے رخ پر
اس کے رخسار پہ تِل ذوقِ مصور ہو گا
ممبئی سے سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر امید اعظمی گویا ہوئے تو سماں باندھ دیا۔
جسکی بنیادِ حکومت میں ہو بیکس کا لہو
اسکے سینے میں کوئی دل نہیں پتھر ہوگا
گر سیاست کا یہی حال رہا تو اک دن
خود مرے خون کا الزام بھی مجھ پر ہو گا
اب مشاعرہ اپنی تمام تر رعنائیوں سے بام عروج پر تھا۔شمعِ مشاعرہ یو پی بھارت سے تعلق رکھنے والے مشاق شاعر جناب کامل جنیٹوی کی طرف بڑھائی گئی ۔آپ نے مرصع غزل سے نواز کر سامعین کے دل جیت لیے۔
کچھ بھی ہو اپنی شجاعت میں الگ بات مگر
اب نہ دنیا میں کوئی فاتح خیبر ہوگا
جس کے الفاظ سے آتی ہو وفا کی خوشبو
ذکر اس شخص کا ہر دور میں گھر گھر ہوگا
یو پی ضلع سنبھل سے ہی بزرگ کہنہ مشق شاعر جناب رفیع سرسوی نے بھی ایک دلکش طویل غزل سے نوازا۔
ہوگئے آج کسی کے وہ ہمیشہ کے لئے
یوں بھی تقدیر کا ماتم مری شب بھر ہوگا
فوجداری ابھی محدود ہے دیواروں تک
یہ تماشہ تو کسی روز سڑک پر ہوگا
اب ریٹائرڈ کیپٹن جناب شاذ جہانی کو دعوت کلام دی گئی ۔آپ کا تعلق بھی یو پی سے ہی ہے ۔صاحب کتاب شاعر ہیں۔
اے مِری دشمنِ جاں، ترکِ تعلق تیرا
عمر بھر ساتھ نبھانے سے تو بہتر ہو گا
جِس کو اڑنا ہے ہوا میں وہ اڑے جیتے جی
آخِرش زیرِ زمیں اس کا بھی بِستر ہو گا
اب مشاعرہ اپنے اختتامی مراحل کی طرف بڑھ رہا تھا ۔اور مہمان اعزاز محترمہ فوزیہ رباب کو دعوت سخن دی گئی۔
آج ان کا انتیسواں جنم دن بھی تھا اور ناظم مشاعرہ نے مشاعرہ انہی کے نام کر کے سالگرہ پر بہترین تحفہ دیا ۔ فوزیہ رباب صاحبہ کے کلام سے آنکھیں تازہ کیجیے۔
میں نے اب نیند کو ہی چشم بدر کر ڈالا
خواب آیا بھی جو اس بار تو بے گھر ہو گا
اب رباب اس کو پرندوں سے بہت نفرت ہے
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہو گا
مہمان خصوصی کی نشست پر براجمان ایک اور کہنہ مشق شاعر جناب ساجد حمید نے بھی ایک اچھی غزل سے نوازا۔
سوچتا ہوں کہ کسی روز معطر ہوگا
زینئہ شب تری آہٹ سے منور ہوگا
اور کیا رکھے گا ہاتھوں میں، مداری ہے وہ
ایک میں زہر تو دوجے میں کبوتر ہو گا
اس کے بعد ٹورنٹو میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے دنیائے ادب کے جانے مانے شاعر جناب عرفان ستار کی جامع و مرصع غزل نے سماں باندھ دیا ۔ شرکا نے بھرپور داد سے نوازا۔
مسئلہ کوئی ہو، الزام مجھی پر ہوگا
اب اگر ہونے لگا ہے تو یہ اکثر ہوگا
ڈوبتے جاتے ہیں یادوں کے سفینے پیہم
کوئی دنیا میں کہاں دل سا سمندر ہوگا
بزرگ کہنہ مشق شاعر محترم اقبال خلش آکوٹوی صاحب جو اس طرحی مشاعرہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے ۔مرصع غزل عطا کی اور خوب داد سمیٹی۔
آج اس واسطے بیکس کی حمایت کی ہے
عین ممکن ہے کہ کل میرا ہی نمبر ہوگا
کون اس دشت خرابات میں آئے گا خلش
سنگِ خارا کا اگر نام گل تر ہوگا
اب مشاعرہ اس جگہ آ پہنچا کہ جس کے بعد سب اپنی تھکن بھول کر محبت کی اس گھڑی کو خیرباد کہنے والے تھے ۔صدر مشاعرہ جناب عتیق انظر کو صدارتی خطبہ کے لیے دعوت دی گئی آپ علالت کے باعث طرحی غزل تو نہیں کہہ پائے تاہم صدارتی کلمات سے نوازا۔
صدر مشاعرہ کا صدارتی خطبہ
مہمانان گرامی قدر، محترم احباب! نقوی صاحب اور برادرم ڈاکٹر شمس کمال انجم کی محبت ہے انہوں نے اس آن لائن مشاعرے کی صدارت سے عزت بخشی، نقوی صاحب نے اس ادبی گروپ میں شامل کرنے کے لیے پیش کش کی تو مجھے لگا کہ جو گروپ فکر کی منتہا ہو اس میں ضرور شامل ہونا چاہیے، آج کا آن لائن مشاعرہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس کے لیے میں نقوی صاحب، برادرم ڈاکٹر شمس اور منتہائے فکر کے تمام ذمہ داران کا شکر گزار ہوں، اس متنوع اور دل چسپ مشاعرے کے لیے ذمے داران کے ساتھ ساتھ شعرائے کرام کو مبارک باد پیش کرتا ہوںجنہوں نے اس زمین میں اچھے اچھے شعر نکالے، دعا ہے اللہ اس ادبی گروپ کو ادب کی بلندیوں تک پہونچائے.
بہت شکریہ بے حد نوازش
آخر میں محترم سید ذوالفقار نقوی صاحب نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ مشاعرہ بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔…
رابطہ؛ 00966580043712