ڈاکٹر جوہر قدّوسی
بیسویں صدی نے اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اردو اور کشمیری زبانوں کے ادبی و شعری افق پر جن شعراءکوجموں و کشمیر میںتابندہ تاروں کی طرح تاباں کیا اور شہرت ِ عام اور بقائے دوام کی بیش بہا ثروت سے سرفراز کیا،ان میں ایک اہم نام سیّد غلام رسول غیور کا ہے۔وہ جنوبی کشمیر کے گہوارۂ علم و ادب کاپروردہ ایک کھلتا ہوا غنچہ ہیں، جس کے ادبی پیراہن میں ان کےعلاقہ رتنی پورہ کی مٹی کی ملاحت اور عظمت و وقار صاف طور پر محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے علمی وقار و اعتبار سے اپنے زرخیز دیار کی آبرو کو سنوارا اور اپنی علمی و ادبی وراثت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اس حد تک نکھارا کہ وہ ادب کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب رہے۔
غیورکے سوانحی کوائف اور حالاتِ زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے،لہٰذا اس پہلو سے پہلو تہی کرتے ہوئے یہاں پر صرف ان کے فکروفن، اسلوبِ سخن، موضوعات و مضامین اور شعری وفنی محاسن پر بات کی جائے گی۔
جہاں تک ان کی مطبوعہ تصانیف کا تعلق ہے،ان کی اب تک8 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،جن میں ان کا کشمیری مجموعہ رباعیات ’نشتر‘ (1966ئ)؛کشمیری نعتیہ مجموعہ’ڈالی‘(2007)؛اردو نثری فن پاروں کا مجموعہ’فکری زاویے،نثری خاکے‘(2009 )؛اُردو مجموعہ غزلیات ’رزم گاہِ حیات‘(2011)؛دوسرااردو مجموعہ غزلیات’سنگ و سمن‘(2012)؛تیسرااردو مجموعہ غزلیات’شفق منظر‘(2013) ؛ کشمیری شعری مجموعہ’سِرَس چھا جامہ نالی‘(2016 ) اور چوتھااُردو شعری مجموعہ’سیل و صحرا‘(2018 )شامل ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم کا بہت سارا کلام ہنوز غیر مطبوعہ ہے،جس کے حجم کےبارے میں اُن کے فرزند شوکت غیورنے بتایا کہ اُن کے اِتنے قلمی مخطوطات محفوظ ہیں،جن سے زائد ازپچاس شعری مجموعے معرض وجود میں آسکتے ہیں۔اگر ایسا ممکن ہوسکا اور مرحوم کے قلمی نسخے زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگئے تو یہ شعروادب کی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا اور غیورصاحب خطہ جموں و کشمیر کے واحد ایسے کثیر الاشاعت تخلیق کار ہوں گے،جن کا ثانی مشکل سے ملے گا۔
فی الحال ہمارے پیش نظرفقط متذکرہ بالا آٹھ تصانیف ِ غیورہیں،جن کے ذریعے وہ خود پر منکشف ہونے اور دوسروں سے اپنا تعارف کروانے کے عمل سے گزرے ہیں۔یہاں پر اُن کے مطبوعہ کلام کے حوالے سےچند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔تاہم اُن کی درجنوں تصانیف ،جو ہنوز تشنہ طباعت ہیں، کے مشمولات کا مطالعہ کرنے سے قبل ہی اُن کے فکروفن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔
غیور ناقدینِ سخن اور ادب پرور حلقوں میں اپنی حیثیت پہلے ہی منواچکے ہیں۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کو برتنے اور خیال کو لفظوں میں سمونے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ اردو شعری مجموعوں میں شامل اُن کی غزلیں، شاعر کی فنی پختگی، تازہ کاری اور شگفتگی کا پتہ دیتی ہیں۔ ندرتِ خیال، جذبات و احساسات کی شدت ،لہجے کا دھیما پن اوردریا کی سی روانی اُن کی شاعری کے نمایاں وصف ہیں۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعری صرف داخلی محسوسات کی کار فرمائی ہے، تاہم اُن کی شاعری کا کینوس محدود نہیں ہے۔ انہیں زندگی کا مکمل ادراک ہے۔ وہ شعور کی حدوں سے پرے خیالی پیکر تراش کر اپنے اندر کا دکھ ان سے بیان کرنے اور شکوے شکایات میں ضرور گم ہیں، لیکن حقیقت سے دور نہیں ہیں
ہے جان لیوا سی آہٹ بھی شامِ فرقت میں
ہوا ہے دل مرا وحشی قیامِ عزلت میں
مرحوم غیور ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔معلم،ماہر تعلیم،ادیب،شاعر،صحافی،خطیب،عالم،مقرر،مفکر،دانشور،سماجی خدمت گاراورسیاستدان ۔۔۔۔یہ اُن کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے۔سیاست ِ دوراں کے ساتھ اُن کی دلچسپی اوروابستگی کو منہا کرکے اگر اُن کے معمولات ِ یومیہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ علم و ادب اور شعروسخن سے عمیق شغف اور لوح و قلم کی پرورش اُن کا روزو شب کا مشغلہ تھا۔علاوہ ازیں سماجی خدمات کے شعبے میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے۔اتنے سارے مشغلے خود پہ سوار کرنا اورڈھیر سارے میدانوں میں ہمت آزمائی کرنا دِل گردے کا کام ہے،جو غیور جیسے سیمابی فطرت کے شخص کی طرح ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔لیکن اِن سارے مشاغل میں اُن کا سب سے دلچسپ مشغلہ شاعری کا تھا۔اُن کے خالص شاعر ہونے کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ انہوں نے ہمیشہ شاعر ہونے ہی کو کافی سمجھا۔ انہوں نے مضمون نگار، افسانہ نگار ، ناول نگار یا نقاد بننے کی کوشش نہیں کی۔حالانکہ اُن کے اندر یہ ساری صلاحیتیں موجود تھیں۔انہوں نے نثر بھی لکھی۔ ریڈیو کے لیے فیچر ، رسائل کے لیے کتابوں پر تبصرے ، دوستوں کے کلام پرتقریظیں بھی لکھی ہیں۔ خطوط بھی خوب لکھتے تھے اور ان کا خط بھی پختہ اور دل کش تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسی سیمابی مزاج اور پارہ صفت فطرت نےاُن کو دیدۂ بینا کے ساتھ دلِ مضطر عطا کیا تھا،جواُن کے لہو لہو وجود سے کرب آشنا اور درد انگیز ہوگیا تھا۔اُ ن کے یہ شعر دیکھئے
میرے ہنگاموں سے نا آشنا اوجِ ثریّا ہے
میری پارہ صفت فطرت کو ہر اختر پہ لکھ دینا
غیور کی ابتدائی شاعری میں رومانیت اور اور رشتوں کے تئیں احساسات کی پو پھوٹتی نظر آ رہی ہے اور جیسے جیسے انگلیاں ورق پلٹتی جاتی ہیں، ان احساسات کے نقش بھی مزید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان غزلوں میں رومانوی خیالات کے درمیان زمانے کے تلخ حقائق کی بھی منظر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں بدلتی دنیا کے تقاضے بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے، جو زمانے کی رفتار کے ساتھ اپنی پہچان بنانے کا ہنر رکھتا ہے۔تاہم اِس ابتدائی دور کے ساتھ ساتھ بعد کے دور میں بھی جو موضوع غیورکے یہاں چھایا ہوا ہے،وہ وفورِ غم ہے۔
مملکت ِ سخن کے شہنشاہ میرکی زندگی سراپا تصویرِغم تھی اور انہوں نے اس کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے تھے کہ
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
غیوراس اعتبار سے میرکے زمانے کے آشوب سے مماثلت اور مشابہت رکھتے ہیں کہ اُن کےکلام میں بھی اکثر جگہ ایسے اشعارنظر آتے ہیں،جن میں دردوغم اور کرب و ستم کا بیان ہے۔اُن کی شاعری کامطالعہ کرتے ہوئے جو الفاظ و تراکیب اور تلمیحات و استعارات باربارقاری کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں،وہ صرف دردوغم ، کرب و ستم اورخونِ دِل کی داستان سناتے ہیں۔مثلاً اُن کے دو اردو شعری مجموعوں :’شفق منظر‘ اور’سیل و صحرا‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے جو استعارات سامنے آگئے،وہ کچھ یوں ہیں :چاکِ دل،خون دل،دل بیقرار،غبار دل،دل زار،خون گُل،خون جگر،زخمی جگر،رقص جنوں،زخمی نظر،زخم نہاں،ارتعاش زخم،شعلہ غم آشنا،آتش غم،اشک غم،شام غم،برگ تپاں،رسم نارسائی،شہر یزیدی،دست ستم،خونین عرس کربلا،شررارماں،برفاب اجالے،خنجر ہوس،درد نہاں،گستاخ آسماں، جستجوئے قتل،چشم ہوس،کفن بدوش،بلکتی صدا،تاب جفا،دشت بلا،شام سزا،راہ جفا،سیہ خون،مقدس گناہ،لہو کا بہتا کارواں،جفا کے پتھر،شوق ویراں،لباس آتشیں،اشک سحر،ریزہ ٔ الماس،تارتارآنچل،بادِ صرصر،نوحہ کناں سحر،اندازِ نوحہ گر،آشفتہ سر،اندھے لمحے،جہانِ ممات،خونِ برگِ گل ،سیلِ مرگ،ضربِ ذہن،داغِ جگر، زخمِ دل،وحشت ِ موسمِ گل،تارتارجگر،منظر، خونیں،دردِ جنوں خیز،لذت ِ جنوں،بدنام جنازہ،خونِ مڑہ،خنجرِ ہوس وغیرہ۔
اِن استعارات کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ غیورکے ذہنِ رسا کو زخمِ نارسائی اوراُن کے دلِ بینا کو کربِ محرومی سے ہمیشہ واسطہ رہا ہے۔اس مسلسل کیفیت سےاُن کی حیات سراپا غم و الم،حزن و ملال اور حسرت ویاس کی ایک غم انگیز تصویرنظر آتی ہے،جس کا مقدر محرومیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔نتیجہ یہ کہ اُن کے سارے کلام پر زخم زخم پیرہن اور لہو لہوگریبان کا مہیب سایہ چھایا ہوا ہے۔یہ شعر ملاحظہ ہوں
سکوتِ بزم سے رزمِ صدا تک میں تو زخمی ہوں
نگاہِ ناز سے دل کی فضا تک میں تو زخمی ہوں
غیورشاعری میںکلاسیکی روایت کے علمبردار تھے،لیکن روایت کی پاس داری کرتے ہوئے بھی وہ اپنے لیے نئے راستے کا انتخاب کرنے اور نئی ادبی جہتوں کی دریافت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔انہوں نے روایت سے انحراف نہیں کیا ہے، لیکن اُن کے تخیل نے مانوس لہجے میں جو شاعری کی ہے، اُس کا ذائقہ نیا ضرور ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اُنہوں نے روایت اور جدّت کو اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اشعار میں سمویا ہے۔وہ تخلیق کاروں کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنی توانا فکر، خوب صورت خیالات، لطیف جذبات اورنازک احساسات کو شعری بندشوں میں برت کراپنی شاعری کو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ان کے تخلیقی تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ انہوں نے جن لفظوں کو اپنے لطیف احساسات وجذبات کے ساتھ چھوا ہے، وہاں اُن کا قلم آبشار کی طرح بہتا نظر آرہا ہے۔اُن کی شاعری میں ایک طرف جرات مندانہ فکر موجودہے،اوردوسری طرف اِس میں عہد حاضر کا درد پوشیدہ ہے۔اسلوبِ بیان، اندازِ گفتگو ، الفاظ کا انتخاب اور پوری شاعری کی فضا اتنی مترنم اور کیف آگیں ہو جاتی ہے کہ قاری کے دل و دماغ سے ایک تبسم پھوٹ پڑتا ہے اور آس پاس ترنم بکھر جاتا ہے۔اُن کی شاعری میں ایک دل آویز شگفتگی اور سلیقہ مندی پائی جاتی ہے
ہم پھر جدید لفظ، نئی بات لائے ہیں
قرطاسِ دِل پہ بولتی آیات لائے ہیں
غیور کی شاعری میں فکر و احساس کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو ہماری صدیوں کی روایت کا ورثہ ہے اور نئی شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے۔ غزلوں میں تشبیہ اور استعارہ کے استعمال کی ندرت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اس پر مستزاد اُن کا اَچھوتا اندازِ بیان اور انوکھی و دلچسپ ترکیبوں کااستعمال ہے، جو اُن کا خاص کارنامہ ہے۔ان کی غزل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مضمون انتہائی سہولت سے شعر میں سمونے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اُن کے شعروں میں موضوعات کی کثرت اور احساسات کا تنوع ملتا ہے۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اپنی جہد مسلسل سے ایک ایسی سمت عطا کی جو ادبی دنیا کی شاہراہ سے جا ملتی ہے۔ زبان کی سادگی اور اظہارِ بیان کی برجستگی ان کی شاعری کی پہچان ہے۔انہوں نے حسن و عشق کے استعاروں کے توسط سے اپنے وطنِ عزیز کی عصری زندگی کے کرب کی بہت عمدہ منظر کشی کی ہے۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایک فنکار صرف اپنے خیالات کی ہی نہیں، بلکہ تمام انسانی احساسات کی ترجمانی کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ وہ ایک حسّاس ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ ہر تجربہ و مشاہدہ اس کے قلم کو مہمیز دیتا ہے اور وہ بنا تعصب کے اسے اپنے لفظوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔یہ کوشش جی،آر،غیورکے یہاں بھی جابجا نظر آتی ہے۔اور حساسیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اوروں کے جذبات و خیالات کو اس شدت کے ساتھ محسوس کیا جائے کہ اس کی کسک آپ کے اپنے دل میں اترتی محسوس ہو
غیور کے شعروں کو پڑھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں بھی موجود ہے۔ انہوں نے خیالوں کی پر لطف وادیوں اور دل میں محبت کی اٹھنے والی انگڑائیوں اور خوابوں کی خود ساختہ دنیا میں ہی رہ جانے کے بجائے اپنے ارد گرد کے کرداروں کو بھی اپنا موضوعِ سخن کمال مہارت سے بنایا ہے۔ایک با ہوش شاعر کو جو احتجاج کرنا چاہیے، وہ انہوں نے بھی کیا ہے لیکن ان کے یہاں شعری جمالیات کہیں مجروح نہیں ہونے پاتی۔اگر شعری جمالیات مجروح ہو جائے تو شاعری نعرہ بازی بن جاتی ہے۔غیور نے فنّی چابکدستی سے اپنی شاعری کو اِن عیبوں سے بچا لیا ہے۔اُن کے یہاں شعری جمالیات کہیں مجروح نہیں ہونے پاتی۔