’’مرحوم سیّد غلام رسول غیورؔ کا تعلق اہلِ علم وفضل کی اُسی برادری سے تھا جس نے کشمیریوں کے روایتی بھائی چارے ،میل ملاپ اور رواداری کی اُن قدروں اور اصولوں کی آبیاری کی ،جنھیں ہر دَور میں آنے والے شعراء اور اہلِ علم وفضل نے اپنے اپنے انداز میں بخوبی پروان چڑھایا ہے۔ میں نے ذاتی طور مرحوم سیّد غلام رسول غیورؔ کو ایک اعلیٰ پایہ مفکر، دانشور ،ماہرِ تعلیم ،شاعر ، ادیب اورسیاستداں ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی اعلیٰ روایات اور قدروں کے علمبردار ہونے کا تجزیہ کیا ہے۔ اور وہ بین الاقوامی سطح پر ہر ایک معاملے کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ غیور صاحب کو علمِ لدّنی حاصل ہے‘‘۔
این، این، ووہرا۔۔۔سابق گورنر ،ریاست جموں وکشمیر
’’غیورؔ صاحب نہ صرف ایک اعلیٰ مفکر اور صحافی تھے، بلکہ ماہرِ تعلیم ، دانشور ، شاعر اور نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اوصاف کے مالک بھی تھے۔ اُن کو بہت سارے علوم اور زبانوں پر دست رَس حاصل تھا۔ آپ نے تمام عمر سماجی اور سیاسی میدان میں رہ کر دوسروں کے فلاح وبہبود کے لیے وقف کی تھی۔ اسی لیے جگہ جگہ انھیں نیک نامی کے ساتھ یاد کیا جاتاہے۔ غیورؔصاحب نے علمی ، ادبی اور سیاسی تصّورات کا جو خاکہ کھینچا تھا، مجھے اُمید ہے کہ ان کے باصلاحیت اور ہونہار فرزند سیّد شوکت غیور اس میں ضرور رنگ بھر کر غیور ؔصاحب کا نام پائندہ وتابندہ کریں گے ۔ انشاء اللہ۔‘‘
مفتی محمدسعید ۔۔۔سابق وزیر اعلیٰ
سیّد جی، آر، غیورؔ ایک بیدار مغز اور زمانہ شناس شاعر ہیں۔ اُن کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سراپا چشم نگراں بن کر حقیقی سطح پر خیر و شر کی معرکہ آرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں، اور اقدار کی پامالی کے دَور میں ’ آشوبِ بقا‘ کے جُزخواں بن جاتے ہیں، ساتھ ہی وہ انسان کی جبلی عاشقانہ اور جذباتی مقتضیات کی آگہی بھی رکھتے ہیں۔ غیوؔر کسی پہلے سے سوچے گئے نظریے، عقیدے یا مقصدیت کو گلے کا ہار نہیں بناتے ہیں، وہ لفظوں سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہیں، یہ لفظوں کا برتائو ہی ہے کہ وہ حقیقت کی سطح پر بھی تخلیقیت سے کنارہ نہیں کرتے، اور آزاد تخیّلی فضا کی تشکیل کرتے ہیں۔ غیوؔر کی شاعری میں متعدد اشعار خود روہیں اور مطلوبہ تراشیدگی سے محروم ہیں، مگر جن اشعار میںشعری لوازم کی پاسداری ملتی ہے‘ وہ شعری تجربے کی تہہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ یہ بات باعثِ طمانیت ہے کہ مرحوم قلم و قر طا س کی حرمت کو عزیز رکھتے ہوئے اور داخلی کیفیات وجذبات کو محض خانہ پری یا کلیشے زدہ روایت کی خوشہ چینی نہیں کرتے بلکہ احساسات کی پیکر تراشی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں شعر گوئی کی روایت کا احترام تو ملتا ہے لیکن وہ اس کے ناظم verificationنہیں،بلکہ اپنے کلام سے عہد حاضر کے ادبی اورفنی مطالعات کا ممکنہ حد تک اپنے لسانی شعور کی شدّت اور جدّت کا احساس دلاتے ہیں۔
بے شک وہ اپنے منتخبہ اشعار میں لفظ و پیکر کی لسانی صورت سے کام لیتے ہیں اور اپنے اشعار کو تہہ داری سے آشنا کرتے ہیں۔ جدید دَور میںانسانی اقدارکی بے حرمتی اور تباہی کو دیکھ کر وہ ایک گہرے احساسِ زیاں سے گزرتے ہیں وہ جدیدیت کے نظریے کی عمل آوری کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اُنھیں بے وقت رحلت کرنے پر ’آئینہ زدودن‘ (بحوالہ غالبؔ) کا موقع نہیں ملا۔ پھر بھی اُن کے کلام کی برجستگی اُن کے تخلیقی ذہن کا پتہ دیتی ہے۔
لکھی ہے بابِ شہر پر فریاد ، خون سے
اب فیصلے تمھاری عدالت کے باقی ہیں
غیورؔ
پروفیسر (ڈاکٹر) حامدیؔ کاشمیری ،سابق وائس چانسلر۔یونیورسٹی آف کشمیر
Oسیّد غلام رسول غیورؔ ایک اعلیٰ پایہ مدّرِس ، صاحبِ قلم، عالِم، مفکّر، قابلِ رشک، پُرجلال اور ایک ہمہ پہلو شخصیت تھی۔ وہ عالمِ دین ، تاریخِ محمدیؐ سے واقف ہونے کی طرح واقف تھے۔ وہ جب بھی ذکرِ رسول محترمﷺ نعت کی صورت میں اپنے بے حد دلکش لحن کے ساتھ کرتے تھے تو سامعین کو اشکبار کرتے تھے۔ جب وہ نعت پڑھتے تھے تو لگتا تھا کہ اُن کا پورا وجودِ مجسّم عقیدت و احترام کا بن گیا ہے۔ اگر لیلیٔ سیاست نے اُن کو اُن کی معصومیت، ایثار اور خلوص کے سبب اپنی طرف نہ کھینچ لیا ہوتا، تو وہ محکمہ تعلیم میںقابلِ ذکر کام کرگئے ہوتے اور برِصغیر میں ادبی و شاعری میدان میں بھی اُن کی ایک خاص چھاپ ہوتی۔
حکیم منظورؔ( مرحوم)
جواں سال سیّدغلام رسول غیورؔ لمبا چوڑا ہاڑ،سُرخ رنگت، چوڑا ماتھا اور بہت اچھے خوبصورت بال ، اپنی قدوقامت اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے بھی بہت متاثر کُن تھے۔ مردانہ وجاہت کے پیکر تھے اور اپنے شباب میں، جو اُن کی سفاکانہ شہادت سے دائمی بن گیا، اپنے وجود سے ارتعاشات پیدا کرتے تھے، اتفاق سے اُن کی آواز بھی بھاری بھاری اور باوقار تھی اور غیرت و حمیّت کے بولتے ہوئے پیکر۔ ورنہ ہم نے ایسے دیوہیکل وجود بھی دیکھے ہیں، جو بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ کوئی بچہ بات کررہا ہے۔ وہ ایک شریف اور نجیب خاندان کے چشم وچراغ بھی تھے ۔ اندھی آندھیوں کو ایسے چراغوں پر حملہ کرنے اور اُنھیں گُل کرنے میں بہت لُطف آتا ہے کہ یہ اِن کی قوّت اور جولانی ماپنے کے تھر ما میٹر بن جاتے ہیں۔جتنا نُمایاں چراغ بُجھ گیا۔ اُتنی بڑی کامیابی آندھی کے حصّے میں آئی۔ لیکن آندھیوں کا مقّدر تھم جانے کا ہوتا ہے اور اُس کے بعد چراغ کی روشنی نہ سہی ،اُس کا تصّور اپنا دوام حاصل کرتاہے۔اِس پیمانے سے دیکھیے تو یہی لوگ اِرتقاء کے سنگِ میل بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ غیورؔ نے خود اِس مجموعے میں بیان کیا ہے۔
ہر سنگِ میل پر میرے خوں کے نشان ہیں
اُن کے شوق بھی بہت تھے۔ ادب، شاعری،احباب نوازی اور وہ دھوکے باز عشوہ گر۔ سیاست۔میں اپنے قارئین کے ساتھ بے تکلفّی سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے غیورؔصاحب کی اُردو زبان بڑی سرسبز اور رواں دواں لگی ۔ چست اور دُرست۔ یہ اُردو کے بڑے دھارے کے اصحابِ عِلم و عَلم کے لیے اِس بات کی نوید ہے کہ اُردو کا مکتبِ کشمیر کس طرح پُختہ اور مستحکم ہوگیا ہے۔غیورؔ نے ہمارے کشمیر کے اُن معاملات پر بڑے ایمائی انداز سے تبصرے کیے ہیں۔ جن سے یہ سبزہ زار ایک بازار بن گیا ہے ۔ا ور بازار بھی ایسا کہ پورا ذکر کرنے سے شرم آئے۔ علامہ اقبالؒ نے ؎
وجودِ زَن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اُسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون
کی بات کی تھی ۔ دیکھئے غیورؔ نے کیسی پُر کاری سے اِس استعار ے کو اُلٹ پلٹ کرکے اِسے نئے مفہوم سے بھر دیا ہے۔
جن کی گرمی سے فلاطوں کا شرارہ ٹوٹا
وہ شباب اب ہیں یہاں سود و زیاں کے اندر
اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ مگر ایک بات کا افسوس تو رہے گاہی، کہ اُن کی شہادت کے ساتھ ہی اُن کے ذہن اور بدن میں جَوان ہونے والے بہت سے امکانات بھی گُل کردیئے گئے۔ میں خونی رِدا میں ملبوس اپنے مرحوم دوست کو سلام کرتا ہوں۔
محمد یوسف ٹینگؔ۔۔۔شوپیان ،کشمیر
سیّد غلام رسول غیورؔ جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ، کو علم و ادب سے نہ صرف ذاتی طور کافی دلچسپی تھی بلکہ وہ نوجوان نسل کو بھی علم و ادب کی طرف راغب کرتے تھے۔ ان کے شاگرد آج بھی اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔ غیورؔ ایک راست گو شخصیت تھی اور بین الاقوامی سطح پر حالات و واقعات کے بارے میں بے لاگ تبصرے کرتے تھے۔ ان کا انداز بالکل غیر جانبدارانہ تھا، ان کی شہادت سے کشمیر ایک اعلیٰ پایہ کے دانشور،عالم، مفکّر، اُستاد اور ادیب سے محروم ہوگیا ہے۔
پروفیسر ریاض پنجابی ،سابق وائس چانسلر ۔یونیورسٹی آف کشمیر
سیّد غلام رسول غیوؔر عشق رسولِ پاکﷺ کی دولت سے مالامال تھے۔ مرحوم بُلند پایہ دانشور اور مفکّر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم ، قابلِ رشک و وجاہت، پُر وقار آواز، پُرجلال اُٹھان اور ایمان و ایقان کی صفتوں سے بھی مالا مال تھے۔ یہ قتیلِ گلکوں قباء ایک بے باک کی طرح بولتے وقت شیرِ زیاں نظر آتے تھے۔ دوسری طرف ایسا بھی لگتا تھا کہ اگر یہ اسدِ روح و جاں شکن گرجے گا تو فضائے غاب بھی تھرتھرانے لگے گی۔ دوسری جانب قلم کے حامل غیورؔ راہئی رہِ بطحا نظر آتے تھے اور ایسے احترام کا احرام پہنتے تھے گویا طفل بے مایہ اپنی ماں کا دامن تھامنے جارہاہے اور سرورِ کائناتﷺ کے اسمِ گرامی کو زبان پر لیتے وقت نازک اور روتے ہوئے شبنمی گلاب نظر آتے تھے۔مرحوم کے وہ بکھرے ہوئے غبارِ خاطرِ زکاوت کے اشعار ہیں جن کی قدردانی عظیم اور قدآور اشخاصِ علم و ادب کو منظور ہے۔ قدر تخیّل کی ہے، پاکیزگیٔ اُسلوب کی ہے، خراج جبینِ نیاز کی ہے، جو رسول محترمﷺ کی دہلیز پر جھکنا اپنی معراج سمجھتی ہے۔جبین اُس مرحوم کی ہے جس کی غیرت کی تمتائی رنگت ہر دم اس قرطاسِ جبین پر تحریر ہوتی تھی۔
ڈاکٹر سیّد محمد فضل اللہ(آئی ، اے ، ایس )ہاروَن ،سرینگر
ہمارے احباب میں غیورؔ صاحب نہایت سنجیدہ تھے اور یہ سنجیدگی صرف شعر وادب تک محدود نہیں تھی بلکہ عصری حالات پر بھی وہ بڑی سنجیدگی سے غور کرتے تھے۔ غالباً اسی سنجیدگی نے اُنھیں سیاستدانوں کے حلقے میں بھی سرگرم ہونے کی طرف راغب کردیا۔ مگر آج کی سیاست ہر ذی شعور سے وفا کی توقع کرتی ہے، بلکہ توقع ہی نہیں، وفا کی فرمائش اس طرح کرتی ہے، کہ جیسے یہ اس بندے کا فرضِ اوّلین ہے اور خود کسی ایسے بندے سے وفا نہیں کرتی ۔ مرحوم غیورؔ صاحب اسی وفا داری کے شکار ہوئے۔ عموماً سزا بے وفائی کی ہوتی ہے ، مگر بعض حلقہ ہائے کار میں وفاداری ہی سزا کا مَستَوجب ٹھہراتی ہے۔
غیورؔ صاحب ایک مخلص صاحب ِقلم تھے، اُن کی تحریروں میں سادگی اور بے پروائی تھی۔ ایک خاص طرح کا لااُبالی پن تھا۔ وہ ادب میں سیاست کے نہیں بلکہ سیاست میں ادب کے قائل تھے۔ اُن کو اپنی تہی دامنی اور وسیع القلبی دونوں کا احساس تھا۔ وہ اپنی شخصیت کے اہم پہلوئوں سے بھی واقف تھے اور دوسروں کا احترام کرنا بھی جانتے تھے۔ اُن کا یہ مقطع ملا حظہ کیجئے ؎
دعائیں اُن کی کیسے ہم سمو پائیں گے دامن میں
غیورؔ اُن سے کہو ہم کو دلِ بے مدعا دے دو
مرحوم غیورؔ سرگو شیوں کا شاعر ہے ، وہ اشارے کرتاہے، وضاحتیں نہیں۔ بنیادی طور پر شاعر سرگوشیاں ہی کرتا ہے۔ ان سرگوشیوں میں صدائوں کا بھی احساس ہوتاہے اور اشاروں کا بھی۔
غیورؔصاحب کو موت کا احساس نہ جانے کیوں اس قدر تھا کہ اکثر و بیشتر اُن کے لاشعور سے نوکِ قلم تک برابر آتا رہا۔لگتا ہے کہ اُنھیں معلوم تھا کہ اُنھیں زیادہ دن اس مادّی دنیا میں نہیں رہنا ہے اور جلد ہی اپنے مالک کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ مگر ایک سچّے مسلمان کی طرح اُن کا عقیدہ تھا کہ موت سے زندگی کا سفر ختم نہیں ہوتا۔
اللہ مغفرت کرے، اُنھیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اُن کے بعد، اُن کے چرچے ہوتے رہیں گے، اُن کا تذکرہ ہوتا رہے گا ؎
اُن سے کچھ اِس طرح کے رہے سلسلے مرے
ہوتے ہیں بعدِ مرگ بھی اب تذکرے مرے
غیورؔ
پروفیسر (ڈاکٹر) محمد زماں آزردہ ۔حسن آباد ،رعناواری، سرینگر
علمی اور ادبی شخصیات کی اس کہکشاں میں جناب مرحوم سیّد غلام رسول غیورؔ ایک منفرد نام ہے‘ جو ایک باصلاحیت استاد، مفکّر، عالِم اور اعلیٰ دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش فکر شاعر بھی تھے۔ شاعری کی ہر صنف میںطبع آزمائی کرچکے ہیں۔ غلام رسول غیورؔ نبی آخر الزّماںﷺ سے بے پناہ عقیدت، نسبت اور محبت کرتے ہیں۔ انداز بدل بدل کے غیورؔ صاحب آقائے دوجہاںﷺ کی خدمتِ اقدس میں عقیدتوں کے گلدستے نچھاور کرتے ہیں۔
پروفیسر (ڈاکٹر) بشیر احمد نحویؔ، سابق ڈائریکٹر، اقبالؒ انسٹی چیوٹ ، یونیورسٹی آف کشمیر
غیو ؔصاحب کے بارے میں کیا کہیں، اُن کی ہمہ پہلو شخصیت ، ان کی بے پناہ صلاحیتیں ان کو اپنے آباء و اجداد کے عرفانی اور تشریح خزینے سے ورثے میں ملی تھی۔ جن کے طفیل غیورؔ صاحب نے عظمت عقیدت بھی پائی تھی۔ غیور ؔصاحب کی شخصیت ایک ایسی ہمہ جہت ملی سرمایہ تھی، جن کو اُنھوں نے ایک ایک تنکہ جوڑنے میںبے پناہ عرق ریزی کی تھی۔ غیورؔ صاحب کی مختصر زندگی میںکئی طوفان بھی اُمڈ آئے جنھوں نے آپکی زندگی کا دھارا ہی بدل دیاتھا۔ آپ نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود اپنے لیے عزائم کے آسمان سجائے۔ غیورؔ صاحب کو مرحوم لکھتے ہوئے جگر پارہ ہوتا ہے، آپ کی علمی، ادبی اور سماجی خدمات اور مفکّرانہ صلاحیتیں سَنَد کا درجہ رکھتی ہیں۔
ظریف احمد ظریفؔ ،سرینگر
غیور ؔکا ذکر ہوتا ہے تو زبان پر بے ساختہ آتا ہے
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے
غیورؔ کی ذات کئی اوصاف کا مرکب تھی۔ وہ سچے معنوں میں پڑھے لکھے، نکتہ رَس زودفہم، جوشیلے مقرّر، دُور اَندیش دانشور اور قابلِ رشک انسان تھے۔ غیورؔ صاحب چونکہ غیور اور راست باز تھے۔ اس لیے بہت سارے احباب کی اُن سے نہیں بنتی تھی، وہ بے خوف ہوکر بات کرتے تھے اور جب بھی بات کرتے تھے، کسی لگی لپٹی کے بغیر، کسی ذاتی مصلحت سے بالاتر ہوکر ایمانداری کے ساتھ کرتے تھے۔ ان کی وجیہہ شکل و صورت کے مد ِنظر لگتا تھا کہ پُر جلال شخصیت ہیں، البتہ اُن کا دل کافی نرم تھا، وہ اکیلے وہ سب چیزیں سوچا کرتے تھے جو اب انجمنیں انجام دے رہی ہیں وہ سچّے معنوں میں دوست تھے۔
عبدالاحد فرہادؔ ۔۔۔عمر ہیر، بژھ پورہ، سرینگر
سیّد غلام رسول غیورؔ ریاستِ جموں و کشمیر کے ایک منفرد اور بےبدل ماہرِ تعلیم، عالِم، صحافی، دانشور، مفکّر، شاعر و ادیب اور سیاستدان تھے۔ جن کا نعم البدل مشکل ہے۔
غیوؔر کی غزلیات ایک خوبصورت آئینہ دار ہے۔ غزلیں زیادہ تر چھوٹی بحر میں، پُرانی قدروں کا اہتمام رکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔ زبان میں انتہائی مٹھاس اور روانی ہے۔ الفاظ کا چنائو آزمودہ اور جانا پہچانا ہے ۔ شاعر نے بے ڈھنگ لفظی ترکیبوں کا استعمال جو آج کل رائج ہے، نہیں کیا ہے۔غیوؔرکشمیری پَروَردَہ ہونے کے باوجود ، اُردو اِ س انداز سے لکھتے ہیں کہ کشمیری نہ ہونے کا شک پیدا ہوتا ہے۔شاید یہ اثر کلاسیکل (Classical) یا پُرانے دَور کے شعرا کو پڑھنے سے ہُوا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی اہلِ زبان نے اُن پر گہرا اثرچھوڑا ہو۔ جوبھی ہو،غیور ؔ کا قلم انفرادی اور قابلِ ستایش ہے۔
سیّد جعفر امیرؔ رضوی ، امریکہ
میرے فقر کی ہے الگ اپنی دُنیا
یہ گردن میں اپنی جھکائوں گا کیسے
بنوں گا نہ منت کشِ غیر ہرگز
میں بارِ مروّت اٹھائوں گا کیسے
غیورؔ
اِن ہاتھوں میں مہندی کی طرح کس کا لہو ہے
میں وارثِ آدم ہوں یہ مجھ کو نہ دکھائو
مکتب میں پڑھا کرتے نہیں طوٗر کے اسباق
آگاہ نہیں راز سے تم بھی، جو بتائو
غیورؔ