غیر دور حاضر میں ان غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت وافادیت عیاں اور واضح ہے ۔ماہرین تعلیم کے مطابق بچے کی ہمہ جہت تعلیمی ترقی اور ذہنی نشو نماء کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کو نصابی کتب اور کلاس روم سے باہر کی دنیا بھی دکھائی جائے ۔ بیسویں صدی کے معروف ماہر تعلیم خواجہ غلام السّدین کا کہنا ہے کہ ’’ایک زندہ مدر سے کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ اس کے طلبہ اپنے شوق سے کتنے مشاغل جوانصاب سے باہر ہیں یا اس میں محض ضمنی طور پر شامل ہیں رائج کر سکتے ہیں اور انہیں استقلال کے ساتھ جاری رکھ کر مدر سے کی زندگی کو خوشگوار ، مفید اور عملی بناتے ہیں ‘‘ ۔ غیر نصابی سرگر میوں سے بچے کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں جب کہ اس میں موجود کچھ خامیاں جیسے احساس کم تری ‘ مرعوبیت ‘ ذہنی اُلجھن ‘ مایوسی ‘ ترّدد ‘ شرمندگی‘ جھجک وغیرہ دور ہو جاتی ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بچوں میں الگ الگ اور مختلف ومتنوع صلاحتیں و دیعت کی ہوئی ہیں ۔ کوئی بچہ تقریرمیں اچھا ہے تو کوئی تحریر میں ۔ ایک بچہ اگر نصابی سیلبس میں کمزور ہو تو ممکن ہے کہ وہ ایک بہترین نعت گو یا فن اورہنر میں آگے ہو ۔ ممکن ہے کہ کسی بچے میں امتحان کو پاس کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہو لیکن اس میں قیادت کے گر موجود نہ ہوں ۔ علامہ اقبالؔ نے اپنی مشہور نظم ’’ ایک پہاڑ اور گلہری ‘‘ میں یہی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک پہاڑ نے گلہری سے کہا کہ تو معمولی اور چھوٹی سی چیز ہے اور مجھے دیکھ کر میں کس قدر عظیم اور شاندار ہوں کہ زمین بھی میرے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔ یہ سن کر گلہری نے کہا کہ ذرا حرکت کر کے دکھائیے اور میری طرح کھجور کے پیڑ پر چڑھ جایئے تو مانوں ۔ پہاڑ اس بات کا کیا جواب دے سکتا تھا کیونکہ ؎
نہیں ہے چیز نکّمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اقبالؔ
صحت مند جسم ہی میں صحت مند دماغ پروان چڑھتا ہے ۔ آج کے دور میں جب بچے سیلبس اور کتابوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں کھیل کود نہایت ہی ضروری ہے ۔ عصرحاضر میں اگر کسی اسکول میں کھیل کود کی طرف دھیان بھی دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد فقط مختلف مقابلہ جات میں شرکت کر کے انعاماتی اسناد اور ایوارڈز حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس طرح بچوں کی اکثریت کھیل کود میں حصہ لینے سے قاصر ہیں ۔ آج سے چند دہائی قبل اسکولوں میں مارننگ اسمبلی کے وقت ہی اسکول میںایک ڈرل پیر یڈ ہو اکرتا تھا جس میں بچے مختلف جسمانی مشقوں Physical Exercisesکا مظاہرہ کرتے تھے اور اس طرح دن بھر نہ صرف وہ جسمانی طور پر فٹ Fitرہتے تھے بلکہ ذہنی طور پر بھی وہ چاق و چو بند رہتے تھے ۔ دور حاضر میں جب Physical Educationکو ایک اہم مضمون کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے ،لیکن زمینی سطح پر اس کو اچھی طرح عملایا نہیں جاتا ۔ جب بھی ہمارے ذہن میں کھیل کود کا تصور آتا ہے تو ہمارا دماغ صرف کرکٹ کی طرف جاتا ہے جو وقت کا زیاں ہے ۔ اس ہمہ وقت مشغول دنیا میں ہمارے پاس محدود فرصت کے لمحات میسر ہیں تو اساتذہ ایسے کھیلوں کا انتخاب کرسکتے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ بچے حصہ لے سکتے ہیں اور جن کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت بھی نہیں ہو۔
غیر نصابی سرگرمیوں سے بچے عملی دنیا سے واقف ہوتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کلاس روم میں کتابوں میں پڑھتے ہیں جب وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں اورحقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کا علم الیقین عین الیقین میں بدل جاتا ہے ۔اس سلسلے میں تعلیمی ، تفریحی اور صنعتی دورے تواریخی مقامات کے دورے ، انتظامی یونٹس کا مشاہدہ وغیرہ نہایت ہی مفید اور معاون ہیں۔بچوں کی اِختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف قسم کے ماڈل تیار کرنا اور مختلف موضوعات پر پروجیکٹس مرتب کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے بچوں میں استدلالی اور سائنسی مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں جیسے اسکولی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ملکی سطح پر(NCSC) National Childran Science Congress نیشنل چلڈرن سائنس کانگریس وغیرہ۔
ماہرین تعلیم اور ماہرین سماجیات کے مطابق ایک استاد کو دور حاضر میں سماجی سائنسدان کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنا ہے، اگر استاد مختلف سماجی مسلوں کے حوالے سے سنجیدہ اور فکر مند ہو تو وہ بچوں کو آسانی سے اس کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ بچے اپنے استاد کی رہبری اور نگرانی میں مختلف قسم کی سروے اور جائزے اور سینسCensusزمینی سطح پر انجام دے سکتے ہیں ۔ بعد میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے زیر مطالعہ ایشو کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔ الغرض غیر نصابی اور غیر تدریسی سرگرمیاں دور حاضر کی ایک اہم پکار ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول میں نظم و ضبط کے تحت اور منصوبہ بندی کر کے ان سرگرمیوں کو انجام دیا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں ۔