سبزار احمد بٹ
یہ بات پہلے سے کہی جارہی تھی کہ معیاری کھانا صرف گھر کا کھانا ہوتا ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے تیار ہوتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ باہر کا کھانا کھانے سے پہلے دس دس بار سوچتے تھے ۔ کسی بھی شخص کو اگر کہیں جانا ہوتا تھا تو وہ کھانا ساتھ لے کر جاتا تھا، لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے ایسی ہوا چلی کہ سب کچھ بدل گیا ۔ لوگوں کا طرز زندگی بدل گیا ۔ لوگ ہوٹلوں پر کھانے کے عادی ہو گئے بلکہ ہم نے ہوٹلوں پر کھانا کھانے کو اپنا معیار بنایا اور ہم اسی شخص کو امیر اور ماڈرن کہنے لگے جو ہوٹلوں پر کھانا کھاتا ہے ۔ ہم نے گھر میں بنے ہوئے کھانے کو کمتر سمجھا اور ہمارے ذہن میں بیٹھ گیا کہ وہی شخص بڑا ہے جو باہر کا کھانا کھاتا ہے۔ ہم اس قدر مگن ہو گئے کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ آخر ہوٹلوں میں دیا جانے والا گوشت کہاں سے آتا ہے ۔؟ یہ گوشت کس جانور کا ہے؟ حلال ہے بھی یا نہیں؟
حال ہی میں ایک سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ کشمیر کے چند ہوٹلوں سے سڑا ہوا گوشت برآمد کیا گیا جو گاہکوں کو کھلایا جاتا تھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رپورٹس کے مطابق یہ گوشت ہسپتالوں کو بھی سپلائی کیا جاتا تھا۔ اس واقعے کے فوراً بعد چند ہوٹل مالکان نے سڑا ہوا گوشت راتوں رات پھینک دیا ۔ اب عوام میں بہت سارے خدشات پیدا ہو گئے ہیں جیسے یہ گوشت کہاں سے آتا تھا ۔ یہ گوشت حلال تھا بھی یا نہیں۔ ہمیں کب سے مکروہ اور سڑا ہوا گوشت کھلایا جا رہا تھا ۔ کتنے لوگ اس غیر معیاری اور سڑے ہوئے گوشت سے بیمار ہو گئے ہونگے یا مر گئے ہونگے ۔ ہمارے ریاست میں فوڈسیفٹی نام کا ایک محکمہ باضابطہ کام کر رہا ہے ۔اس شرمناک واقع کے بعد فوڈ سیفٹی نام کایہ محکمہ بھی سوالات کے دائرے میں آگیاہے، چند سوالات عوام کے ذہن میں ہیں جیسے کیا سڑے ہوئے گوشت کے مالکان کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا؟ جب تک اتنا سڑا ہوا گوشت وادی کشمیر لایا گیا، پکایا اور لوگوں کو کھلایا گیا تب تک محکمہ فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کیا کر رہا تھا؟ محکمہ فوڈ سیفٹی نے اس مصیبت سے بچنے کے لیے کون سے احتیاطی تدابیر اپنائےہیں ؟ ایسے گھناونے کام کرنے کی ہمت کہاں سے آرہی ہے، ان لوگوں کے سر پر کس کس کا ہاتھ ہے؟ کیا محکمہ ان تک پہنچ پائے گا؟
جب جاگے، تب سویرا والی بات ہو گئی ہے۔ اس معاملے کے فوراً بعد محکمہ فوڈ سیفٹی اور پولیس متحرک ہو گئی ہے۔ جگہ جگہ پر چھاپے مارے گئے ۔سینکڑوں کلو سڑا ہوا گوشت برآمد کیا گیا۔ کباب برآمد کیے گئے، رستے برآمد کیے گئے اور انہیں موقع پر ہی ضائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ محکمہ پولیس اور فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کی کاروائی کو دیکھتے ہوئے کچھ ہوٹل مالکان نے خود ہی یہ سڑا ہوا گوشت ضائع کر دیا، یا رات کے اندھیرے میں دریا کے کناروں کی جانب پھینک دیا۔اس معاملے میں صحافت سے جڑے ہوئے چند لوگ بھی برابر کے شریک ہیں ،جو ہوٹلوں میں ویڈیو بناتے تھے کہ چالیس روپے میں رستہ یا کباب ملتا ہے، جو ہوٹلوں کی پروموشن کے لیے وہاں رستہ یا کباب کھانے کا مقابلے کراتے تھے، کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ کوئی ہوٹل مالک اتنی سستی قیمت پر رستہ یا کباب کیسے بھیج سکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نام نہاد صحافیوں کے خلاف کب کاروائی ہو گی ،سوالات بہت سارے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے ہماری وادی میں مختلف مہلک بیماریاں روز بروز پنپ رہی ہیں، کیا ان بیماریوں کا تعلق اس کھانے پینے سے ہو سکتا ہے۔ کینسر مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گی ہے ۔ کیا اسی زہر بھیجنے سے ہماری ریاست میں کینسر جیسی بیماریاں تو عام نہیں ہو گئی ہیں؟ بہرحال اس کا جواب ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن ہم پولیس اور فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ سے امید رکھیں گے کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا جائے گا اور مجرموں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی ۔اس کے علاوہ باقی ہوٹلوں پر بھی چھاپے مارے جائیں گے اور یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ ہوٹلوں میں اس طرح کی گندگی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔ پوری وادی کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ کہانی کا یہ ایک پہلو ہے لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں نے گھر کے کھانے کو ترجیح ہی نہیں دی۔ ہم لوگ گھر سے نکلتے ہیں اور ہوٹلوں کے میں کھانے کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن آج یہ شرمناک واقع پیش آیا ہے۔ اس واقعے سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیے، ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے ورنہ ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ جتنا جلدی ہو سکے ہمیں ہوٹلوں کے کھانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے ۔ گوشت قصائی سے لانا اور گھر پر پکانا بہتر ہے۔ ہمیں ہوٹلوں سے دور رہنا چاہیے اور اس ناپاکی اور گندگی سے اپنے آپ کو اپنے گھروں کو اور اپنے بچوں کو بچانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی بہت سارے ہوٹل مالکان ایسے بھی ہوں گے جو صاف و شفاف طریقے سے کھانا پکاتے ہوں گے، لیکن اب کی بار سب کے سب شک کے دائرے میں آگے ہیں اورفی الحال اس چیز سے احتیاط کرنی چاہیے ۔فی الحال باہر سے پیک کئے گئے مرغے، کباب، رشتے اور گوشت سے مکمل طور پر اجتناب کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہوٹلوں سے نہ صرف ہمیں اپنے آپ کو دور رکھنا چاہیے بلکہ نئی نسل کو بھی اس بات کی ترغیب دینی چاہیے کہ گھر کا کھانا سب سے اچھا ہوتا ہے اور ہوٹلوں کے کھانے سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے، ورنہ مختلف قسم کے بیماریوں کے شکار ہو جائیں گے۔ اگر چہ چاروں طرف افراتفری کا ماحول پیدا ہو چکا ہے تاہم محکمہ پولیس اور فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ پر ہمیں اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ اپنا کام کریں گے اور اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے اور کسی بھی ایک کو اس معاملے میں بخشا نہیں جائے گا۔ یہ عوامی زندگیوں کا سوال ہے اور لوگوں کو زندگیوں کا تحفظ دینا سرکار کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ہم امید کریں گے کہ گورنر انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عوامی سرکار بھی اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے گی اور عوام کو یقین دلائے گی کہ اس طرح کے معاملات آئندہ پیش نہیں آئیں گے ۔ بہرحال عوام کو پوری امید ہے کہ غیر معیاری گوشت فروشوں ،منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو عبرتناک سزا دی جائے گی اور ان کی لائسنز کو رد کیا جائے گا تاکہ یہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کریں اور باقی ہوٹل مالکان بھی اس معاملے سے سبق لیں۔فی الحال جب سے یہ معاملہ سامنے آیا ہے تب سے آئے روز یہ خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ جگہ جگہ پر سڑے ہوئے گوشت کی پیٹیاں پھینکی جارہی ہے اور آئس کریم بھی پھینکے جا رہے ہیں، جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ہماری وادی سڑے ہوئے گوشت کی منڈی بن چکی ہے۔
<[email protected]>