مشتاق الاسلام
پلوامہ //جموں و کشمیر میں اعلی کثافت والے باغبانی اسکیم (ہائی ڈینسٹی ہارٹیکلچر اسکیم) کے تحت کسانوں کو فروغ دینے کے بجائے مشکلات میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ اس اسکیم میں بدعنوانی اور انتظامی بے حسی نے ان کی مالی حالت مزید خراب کردی ہے۔کسانوں نے اس اسکیم میں بھاری سرمایہ کاری کی، قرض لیا، اور بعض نے اپنی زمین بھی بیچ دی تاکہ وہ حکومت کے تعاون یافتہ اس منصوبے کا حصہ بن سکیں۔ تاہم انہیں غیر معیاری پودے، زیادہ قیمتیں، اور سبسڈی کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس اسکیم کے تحت کام کرنے والی نجی ایمپینیلڈ کاروباری کمپنیوں (PES) پر کسانوں کے استحصال کے الزامات لگ رہے ہیں۔پلوامہ کے سماجی کارکن اور مبینہ اسکینڈل کے شکار طارق عزیز ڈار نے نجی کاروباری افراد کے کردار پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں نے اسکیم کے اصولوں میں ہیرا پھیری کی ہے، جس کی وجہ سے فی کنال پودوں کی تعداد کم کردی گئی، قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا، اور کسانوں کو سبسڈی کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔کسانوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ یہ کمپنیاں ضروری نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (NOC) جاری کرنے سے انکار کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری مداخلت نہ کی تو کسان شدید مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں گے۔”کسانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا محکمہ باغبانی کے ضلعی حکام سے شکایت کی،لیکن کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی۔متاثرہ کسانوں اور کارکنوں نے حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے سکیم میں مبینہ بدعنوانی کی مکمل تحقیقات۔ناجائز منافع خوری اور غیر معیاری مواد کی فراہمی میں ملوث نجی کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی۔کسانوں کو مزید استحصال سے بچانے کے لئے شفاف طریقہ کار وضع کرنا شامل ہے۔