اگلے چند برسوں میں بیشتر سیب کے باغات تباہ ہونے کا خدشہ
مشتاق الاسلام
پلوامہ//وادی کشمیر میں جدید طرز کے ہائی ڈینسٹی سیب کے باغات ایک خطرناک بحران سے دوچار ہیں۔ان باغات میں بڑے پیمانے پر غیر معیاری جی آئی پائپوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ عمل نہ صرف بھارتی معیار IS 1239کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ سیب کی صنعت کی طویل مدتی پائیداری کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیشتر باغات میں استعمال ہونے والی GIپائپ یا تو کلاس Aکی ہیں یا اس سے بھی کم معیارکی، جن کی موٹائی 1.5ملی میٹر سے کم اور وزن 10کلوگرام سے کم ہوتا ہے، جو کہ پچاس سال تک چلنے والے ٹریلس سسٹم کیلئے ناکافی ہے۔ بھارتی معیار IS 1239 کے مطابق کلاس Aپائپ کی متوقع عمر صرف 5 سے 8 سال،کلاس B کی 8 سے 15 سال جبکہ کلاس Cپائپ، جو سب سے مضبوط ہیں، 15سے 20 سال کی عمر رکھتے ہیں۔علیال ایگرو پرائیویٹ لمیٹڈ کے بانی عاشق علی کا اس سلسلے میں کہنا ’’ کشمیر میں جو ٹریلس سسٹم لگایا گیا ہے وہ درمیانے درجے کی ہوا کو بھی نہیں سہہ سکتا‘‘۔ انہوں نے کہا’’ یورپی ممالک میں پری اسٹریسڈ کنکریٹ پول استعمال ہوتے ہیں، جن کی عمر 70سال سے زائد ہوتی ہے اور وہ عالمی باغاتی معیار پر پورا اترتے ہیں‘‘۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ 60ملی میٹر قطر کے GIپائپ، جنہیں ISمعیار کے مطابق 5.5کلوگرام فی میٹر ہونا چاہئے، وہ اکثر کم وزن اور موٹائی کے ساتھ مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو کہ شدید برفباری اور طوفانی ہوائوں میں تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ایک باغبانی ماہر نے بتایا’’ صرف کلاس Cکے پائپ، جن کی موٹائی کم از کم 4ملی میٹر ہو اور جن پر 250 GSM زنک لگاہو، وہی زیرِ زمین استعمال کے لیے موزوں ہے۔اکثر کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پائپوں کے معیار سے ناواقف ہیں اور صرف سپلائرز یا حکومتی سکیموں پر اعتماد کرتے ہیں۔ شوپیان کے ایک باغبان بشیر احمد نے کہا’’ ہم نے سکیم اور سپلائر پر بھروسہ کیا، اب نقصان بھگت رہے ہیں‘‘۔ادھر حکومت نے اسمبلی اجلاس میں ایسے کسی غیر معیاری منصوبے کی اجازت دینے کی تردید کی ہے۔ اس دوران ترال کے ایم ایل اے رفیق احمد نائیک کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات نے معاملے کو سنگین بنا دیا ہے۔اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آنے والے چند برسوں میں ہزاروں کنال سیب کے باغات زمین بوس ہو سکتے ہیں، جس سے کسانوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور کشمیر کی سیب کی صنعت، جو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے، کو ناقابل تلافی دھچکا پہنچے گا۔قابل ذکر ہے کہ اپریل کے مہینے میں تیز آندھی سے پلوامہ میں 4کنال اراضی پر ہائی ڈینسٹی باغ مکمل طور تباہ ہوچکا تھا۔کشمیر کے فروٹ گرورس نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی جانب توجہ مرکوز کی جائے تاکہ کسانوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔