گذشتہ کچھ دہائیوں سے جہاں پوری دنیا بدل رہی ہے، وہاں ہم بھی بدلے اور ہماری سوچ بھی بدلی، وقت کے ساتھ تبدیلی اچھی لگتی ہے مگر شاید ہم کچھ زیادہ ہی بدل گئے ہیںاور یہاں تک بدلے کہ اپنی پہچان ، اپنا مذہب ، اپنی روایت ، اپنی ثقافت تک کو بھول بیٹھے۔شائد یہی وجہ ہےکہ اب ہماری معاشرتی بدیوں اور بُرائیوں کے حوالے سے ہماری انفرادی اور اجتماعی کارکردگی ایسی افسوس ناک بن گئی ہے کہ رشوت ،دھوکہ دہی ، جعلسازی اور ناجائز منافع خوری معاشرے کے رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے،جس کے منفی اثرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔لیکن صحت عامہ سے متعلق دھوکہ دہی اور جعل سازیوں پر ہماری خاموشی گویا ایک طرح سے اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے،جس سے ہمارا معاشرہ دن بہ دن بُرباد ہوتا جارہا ہے۔جموں و کشمیرمیں نقلی اور غیر معیاری اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ غیر معیاری ،ناقص اور جعلی ادویات کا دھندا بھی روز افزوں فروغ پارہا ہے۔جس سے قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ناقص اور غیر معیاری خوردو نوش کا دھندا جہاں شہر میں بڑے پیمانے ہورہا ہے وہیں غیر معیاری اور جعلی ادویات کا دھندا شہرو دیہات میں آلو پیاز اور دال مٹر کی ہورہا ہے۔ شہر کے گنجان آباد اندرون علاقوں اوردیہات میں بغیر لائسنس کے دوا فروش اور خود ساختہ ڈاکٹرانسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے والے ناسور کی طرح پھیل چکے ہیں۔اگرچہ وادیٔ کشمیر میں معیاری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی اور ناقص ادویات کی روک تھام کا کام ڈرگ اینڈ فوڈ کنٹرول آرگنائزیشن نامی ادارہ کرتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ منفعت پرستی کے تحت مریضوں کی جانوں سے کھیلنے والے غیر قانونی دوا فروشوں کو لگام دینے میں تاحال ناکام ثابت ہوا ہے۔وادی کے اطراف و اکناف خصوصاًدور دراز علاقوں اور دیہات میں ادویات کا دھندہ چلانے والے ایک طرف غیر قانونی طریقے ادویات کی دکان چلارہے ہیں تو دوسری طرف ناقص ،غیر معیاری اور نقلی ادویات چلانے والا مافیا بے شمار سادہ لوح، معصوم اورغریب مریضوں کی موت یا جان لیوا مرض کا سبب بن رہا ہے۔یہ صورت حال اس لئے پیدا ہورہی ہے کہ دراصل ہمارے یہاں صحت عامہ کے حوالے سے بنیادی سہولیات کا زبردست فقدان ہے۔شہر و دیہات میں آبادی کے تناسب سے صحت مراکزکی عدم دستیابی ہے،اور جو صحت مراکز موجود ہیں،اُن میں سے زیادہ مراکز میں نہ صرف معالجین کی کمی ہے بلکہ ان مراکز میں جدید طرز کے طبی آلات اور ادویات کی قلت ہے۔ان حالات میں غریب اور متوسط طبقوں سے وابستہ مریض غیر تسلیم شدہ کلینکوں اور غیر تربیت یافتہ دوا فروشوں کے پاس جانے کے لئے مجبور ہوتے ہیں،جہاں ان کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی۔ظاہر ہے کہ غریبی اور مفلسی زندگی کی خوشیاں چھین لیتی ہے اور انسان کو بے بسی کی تصویر بنا دیتی ہے، اس حال میں جب کوئی کسی مرض میں مبتلا ہوجائے تو زندگی نہ صرف انتہائی اذیت ناک بن جاتی ہے بلکہ ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہوتی ہے،کیونکہ علاج کی سہولت اور دوا کا حصول موجودہ دور میں اب حد سے زیادہ دشوار مسئلہ بن چکا ہے۔وادیٗ کشمیر کے سرکاری ہسپتالوں اور دوسرے صحت مراکزمیں ڈاکٹروں کی نایابی اور عملے کی ہمہ وقت موجودگی ،مریض پر توجہ ،سرکاری سطح پر مفت ادویہ کی فراہمی،عام طبی ٹیسٹ کی سہولیات تواتر کے ساتھ غریب و مفلس شہریوں کے لئے ایک خواب کی صورت ہی بنی ہوئی ہے۔بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ عملی اقدامات اٹھائیں ،اور جہاں کہیں بھی علاج و معالجہ کے نام پر مافیا اور جعلساز دوا فروش ،سادہ لوح عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں،وہاں اُن کے خلاف سختی کے ساتھ نپٹنے کے احکامات جاری کریںاور ساتھ ہی حکومتی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ سرکاری طبی اداروں کا دورہ کریںاور مریضوں کو ملنے والی طبی سہو لیات کا جائزہ لیں تاکہ مفلسی و غربت سے ستائی ہو ئی عوام کو علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میسر ہو سکیں۔جبکہ سرکاری انتظامیہ پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بازاروں میں کھلے عام بکنے والی ناقص ،غیر معیاری اور نقلی خوردونوش و ادویات کا بھی نوٹس لیں،جن کے استعمال سے یہاں نِت نئے جان لیوا امرض جنم لے رہے ہیں۔