فدا حسین بالہامی
سرور کائنات ؐنے اپنی اولوالعزمانہ حکمت عملی اور سیاسی تدبر سے ایک انسان نواز حکومت یثرب میں قائم کی،تاکہ بلالحاظ مذہب و ملت بنی آدم ایک دوسرے کے شر سے محفوظ ہوں۔ یہودیوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر آپ ؐنے مدینے میں مقیم مسلمانوں کو پابند عہد کیا۔ چنانچہ معاہدہ کی صورت میں مذہبی رواداری کا پہلا منشور جاری ہوا۔ جس کے مندرجہ جات تاریخ کے اوراق میں کچھ اس طرح موجود ہیں۔
’ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کے پیروکار مومنوں (خواہ مہاجر ہوں یا انصار) اور تمام اُن غیر مسلم اشخاص کے مابین ہوا جو چاہے کسی بھی قوم و قبیلہ سے ہوں۔ مسلمانوں کے مقاصد سے متفق ہیں۔ یہ سب گروہ ملکر ایک قوم شمار ہوں گے‘‘۔
جن یہودیوں نے اس دولت عامہ کے ساتھ برضا و رغبت الحاق کیا، اُن کے حق میں مسلمانوں کے نام خصوصی ہدایات جاری کی گئیں۔ ان ہدایات میں سے چند ایک کا مختصر جائزہ یہاں پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ اس مملکت اسلامی میں امن پسند غیر مسلموں کے معاشی، معاشرتی اور انسانی حقوق کا پاس و لحاظ کس اہتمام سے کیا گیا تھا۔
۱۔ انہیں ہر طرح کی توہین و تعرض سے محفوظ رکھا جائے،۲۔ ضرورت پڑنے پر انہیں مسلمانوں کی پشت پناہی اور نصرت و امداد کا حق حاصل ہو گا،۳۔ مذہبی احکام کی بجاآوری میں جس قدر مسلمان آزاد و خود مختار ہیں انہیں بھی اس معاملے اُسی قدر آزادی حاصل ہو گی،۴۔ مملکت کی حفاظت کے حوالے سے یثرب کے یہودی مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہوں گے،۵۔ جو لوگ معاہدے کو قبول کریں گے اندورنی یثرب اُن کے لئے دارالامان ہو گا،۶۔ تمام سچے مسلمان ہر اُس شخص سے نفرت کریں گے جو کسی جرم،ناانصافی یا بدامنی کا مرتکب ہو گا، اس معاہدے کی آخر ی اور اہم شق میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کو یوں تسلیم کیا گیا ہے،۷۔ معاہدے کو قبول کرنے والوں کے درمیان محمد رسول اللہ کو قاضی کے اختیارات حاصل ہونگے۔ جب بھی کبھی ان لوگوں کے درمیان آئندہ کوئی تنازعہ سر اُٹھائے گا تو اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُس کا تصفیہ ہو گا۔
امانت داری اور عدل و انصاف کا آفاقی درس:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امانت داری اور عدل گستری کے کامل نمونہ تھے انہوں نے کبھی بھی عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور زندگی بھر اس معاہدے کی رو سے غیر مسلموں کے ساتھ کریمانہ سلوک روا رکھا۔ چنانچہ فیصلہ کرتے وقت کسی بھی قسم کی نسبت ان کے آڑے نہیں آتی تھی۔ آپ کی عدالت میں امیر و غریب ، سیاہ و سفید اور مسلم و غیر مسلم کو مساوی انصاف ملتا تھا۔ مجرم کو سزا اور مظلوم کی حمایت کرتے تو قرآن مجید کے اس اصول کا عملی نمونہ قرار پاتے۔ترجمہ:’’ خدا وند عالم تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو،خدا تمہیں اچھا واعظ و نصیحت کرتا ہے، خدا سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (سورہ نسا آیت: ۵۸)
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفسیر ِ نمونہ رقمطراز ہے۔’’زیر نظر آیت اگر چہ بہت سی دوسری آیتوں کی طرح خاص موقع اور محل پر نازل ہوئی ہے لیکن واضح ہے کہ اس سے ایک عام حکم کا پتہ چلتا ہے آیت تفصیل سے بتاتی ہے کہ خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروںکو دے دو ۔ واضح ہے کہ یہاں امانت کا لفظ ایک وسیع معنی میں ہے اور وہ ہر قسم کی مادی اور روحانی چیزوں اور امور پر محیط ہے ہر مسلمان اس آیت کے مطابق ذمہ دار ہے کہ کسی کی امانت میں (کسی استثنا کے بغیر ) خیانت نہ کرے ۔ صاحبِ امانت مسلمان ہو کہ غیر مسلم اور حقیقت میں اسلام میں حقوق انسانی کا اعلان ہے جس میں تمام انسان برابر ہیں ۔آیت کے دوسرے حصے میں ایک اور اہم قانوں کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہے حکومت اور قضاوت میں عدالت ۔یہ دونوں اہم اسلامی قانون یعنی حفظِ امانت اور قضاوت میں عدالت ایک پاکیزہ انسانی معاشرے کا سنگ میل ہیں۔کوئی بھی معاشرہ چاہے وہ مادی ہو کہ روحانی ان ہر دو اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر منظم نہیں ہو سکتا ۔پہلا اصول یہ ہے کہ اموال،ثروت ، دفاتر کی ذمہ داریاں ،انسانی سرمائے ، ثقافتی اور تاریخی دستاویزات ، میراث اور ترکہ سب خدائی امانتیں ہیں۔ جو معاشرے کے مختلف افراد کے سپرد ہوتی ہیں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی امانتوں کی حفاظت کریں۔ انہیں ان کے اصلی مالکوں کو دینے کی کوشش کریں اور ان مین کسی طرح خیانت نہ کریں‘‘۔(تفسیرِ نمونہ۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی۔ترجمہ ۔ صفدر حسین نجفی۔جلد دوم ۔صفحہ ۴۸۰،۴۸۱)
زیرِ نظر آیات سے پیشتر ہی آنحضور ؐ نے امانت داری کا جو عملی مظاہر ہ مکہ میں کیا اس کی نظیر تاریخ ِ عالم میں اور کہیں نہیں ملتی ہے۔ وہ کفارِ قریش جنہوں نے آپ کی دشمنی اور بے تعصب میں تمام تر اخلاقی اور انسانی حدود پائمال کئے نیز اپنی ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی وجہ سے الٰہی پیغام پر کان دھرنے سے صاف انکار کیا۔آپ ؐ کو ساحر و جادو گرتک کہا۔یہاں تک کہ آپ ؐ کو قتل کرنے کی سازش بھی رچائی، انہوں نے بھی آپ ؐکوامانت و صدا قت کا پیکر مانا۔تاریخ اس واقعے کو سنہری الفاظ سے اگر رقم نہ کرے تو ناانصافی ہو گی کہ جب کفارِ قریش کے سردار رسول اکرمؐ کے دلائل و براہین اور صاف و شفاف کردار کے سامنے بے بس ہوئے ۔اور انہیں یہ محسوس ہوا ۔ کہ وہ ضلالت و گمراہی کے سیاہ پردوں میں آفتابِ رسالت کو ڈھانپنےسے قاصر ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اگر اس انقلابی تحریک کے دیر پا اثرات کو روکنا ہے تو محمدؐ کو قتل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔چنانچہ انہوں نے ایک سازش رچی کہ قریش کے ممتاز قبیلوں سے کچھ چنندہ جوان خانہ نبوت کا محاصرہ کریں گے ۔اور جب آپ ؐ نمازِ فجر کے لئے اپنے گھر سے باہر تشریف لے آئیں گے توتمام کے تمام محاصرین ان پر یکایک حملہ آور ہو کر آپؐ کی زندگی کا خاتمہ کر دیں گے۔اور یوں بنو عبد مناف کے سوا تمام قبائل ِ قریش اس جرم میں شریک ہوں گے ۔اور اس طرح بنو عبد مناف ان تمام قبائل سے انتقام گیری کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔لیکن خدا وند کریم نے اس خفیہ سازش کے متعلق اپنے محبوب کو پیشگی ہی اطلاع اور اپنے آبائی وطن سے ہجرت کا حکم نازل ہوا۔اس بات کا اندازہ لگانا نہایت ہی مشکل ہے کہ اس وقت پیغمبر رحمتؐ کے جذبات و احساسات کس قدر مجروح ہو چکے ہوں گے۔کیونکہ ایک جانب قتل کی سازش اور دوسری جانب ترکِ وطن ملکر ایک ایسا مستحکم سبب ضرور تھا کہ آپؐ ان بد خواہوں سے تمام تر تعلقات منقطع کرتے ۔اور ان سے وابستہ تمام فکرمندیوں سے یکسر مبّرا ہو جاتے۔لیکن ہجرت کے تکلیف دہ سفر کو شروع کرنے سے قبل آپ نے حضرت علی ؑ کو بلایا اور بستر ِ رسول ؐپر سونے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ تمام امانتیں ان کے سپرد کردیں۔ اور ان امانتوں کے متعلق حضرت علی ؑ کو یہ تاکید کی کہ یہ تمام امانتیں لوٹانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہوجائے۔اس سے بڑھ کر امانت داری کا کیا معیار ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے نبی رحمتؐ کو نہ صرف جلا وطنی پر مجبور کیا بلکہ آپؐ کو قتل کرنے کی منظم سازش بھی رچی ان کی امانتیں لوٹانے کا اہتمام کر کے ہی ہجرت کی راہ لی۔
عدل و مساوات کا آفاقی اور ہمہ گیر تصور جس غیر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے اُس تقاضے کی بجاآوری رسالت مآبؐ کے یہاں ہمیشہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ قرآن کریم کے سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۰۵ میں خدا وند کریم رسولِ اکرم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے ‘‘ ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ نازل کی تاکہ اس کے ساتھ جو خدا نے تجھے علم دیا ہے لو گوں کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کے حامی نہ بنو‘‘۔
مذکورہ آیت کے سیاق و سباق میں ایک واقعہ اکثر مفسرین نے نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کے مطابق ‘‘ایک انصاری کی ذرہ آٹے کے تھیلے میں دری پڑی تھی جو آٹا سمیت گم ہو گئی۔ شاہ عبدالقادر کی تفسیر موضح القران کے مطابق جب اس انصاری نے ذرہ کی کھوج بین شروع کی تو چونکہ آٹے کے تھیلے میں ایک سُراخ تھا، جس سے چوری کرنے والے کے گھر تک آٹے کا ایک خط پایا گیا۔ جس کا نام طمعہ بن ابیرق تھا۔ طمعہ بن ابیرق کے صحن خانہ سے ہوتے ہوئے یہ خط ایک یہودی کے گھر تک آپہنچا۔ جب یہودی سے ذرہ کے مطابق دریافت کیا گیا تو اُس نے کہا کہ طمعہ نے یہ ذرہ امانتاً میرے سپرد کی ہے۔ طمعہ چونکہ مسلمان تھا اور اصل میں چوری کا مرتکب وہی ہوا تھا لیکن ظاہری آثار و قرائن یہودی کو ہی مجرم قرار دے رہے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں میں سے ایک جماعت طمعہ بن ابیرق کی حمایت میں اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس جماعت نے کوشش کی کہ بزعم خود وقار اسلامی کی ساکھ برقرار رکھنے کی خاطر یہودی کو مجرم اور طمعہ کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔ مگر رسول اکرم ؐ کی نگاہ عدالت نے اصل مجرم کی بروقت شناخت کر لی اور اور انصاف کے عین مطابق یہودی کو الزام سے بری کیا گیا اور چند صحابیوں کی وکالت کے باوجود طمعہ بن ابیرق کو اصلی مجرم ٹھہرایا گیا۔‘‘ (بحوالۂ تفسیرِ قرآن۔ از سید نقن نقی ) اس طرح کے کئی واقعات نقل کئے جا سکتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ صادر فرماتے وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ہرگز مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں ہوتا تھا۔
سورہ نساکی آیت نمبر ۱۳۵ میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ۔’’ اے ایمان والو!مکمل طور پر عدالت کے ساتھ قیام کرو ، خدا کے لئے گواہی دو اگر چہ یہ خود تمہارے لئے یا تمہارے والدین کے لئے یا تمہارے اقربا کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر وہ غنی یا فقیر ہوں تو خدا حق رکھتا ہے کہ ان کی حما یت کرے، اس لئے ہو و ہوس کی پیروی نہ کرو، اس طرح تو حق سے منحرف ہو جاؤ گے۔ اور اگر حق میں تحریف کرو گے یا اس کے اظہار سے اعراض کرو گے تو جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ‘‘۔
قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات زمانہ جاہلیت کے معاشرتی مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔چنانچہ اس دور میں اقربا پروری اور قبیلہ پرستی عربوں کا طرہ امتیاز تھا ۔وہ اپنے قبیلے کے لوگوں کی خاطر خیانت کاری ، مرنے مٹنے اور قتال کا بازار گرم رکھنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ایسے میں ان کو امانت داری کا درس دینا اور پھر تدریجاً عدل و انصاف کی ڈگر پر کھینچ لا نا کارے دارد والا معاملہ تھا۔مگر آنحضرت ؑ نے یہ کام بحسن خوبی انجام دیا ۔ اس لحاظ سے بلا لحاظ مسلک و مذہب تمام عالم ِ انسانیت ان کے زیرِ بارِ احسان ہے۔
(رابطہ۔Cell no:7006889184)