سرینگر//’’نجی کوچنگ مراکزکوجوابدہ نہ بنانے پرسرکارکی سرزنش‘‘ کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے’’ ٹنل کے آرپارقائم ایسے غیرمستندسینٹروں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کی ہدایت‘‘ دی ۔جسٹس مظفرحسین عطار اور جسٹس علی محمدماگرے پرمشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سرکارسے اس ضمن میں ججوں کی خصوصی پینل کی ہدایات پرعملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی اگلی شنوائی ماہ فروری 2017 کے تیسرے ہفتے میں کرنے کافیصلہ صادر کیا۔ ریاستی ہائی کورٹ نے مقامی حقوق انسانی کارکن محمد احسن اونتو کی طرف سے سرینگر سمیت پوری وادی میں قائم کئے گئے نجی کوچنگ مراکز میں تربیت پانے والے طلباء اور طالبات کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور اُن سے بھاری فیس وصول کرنے کے سلسلے میں مفاد عامہ کے تحت دائر عرضی کو گزشتہ روز پھر زیر سماعت لایا۔؎ڈویژن بنچ نے اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ عدالت عالیہ کی ہدایت پر قائم کئے گئے ججوں کے پینل نے وقتاًفوقتاًنجی کوچنگ مراکز کو جوابدہ بنانے اور وہاں لازمی سہولیات کو یقینی بنانے کے حوالے سے جو سفارشات پیش کی تھیں یا جو ہدایات دی تھیں ، اُن سفارشات اور ہدایات کو متعلقہ حکام زمینی سطح پر عملانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نے کہا کہ ٹنل کے آر پار قائم نجی کوچنگ مراکز میں بنیادی ڈھانچے اور یہاں آنے والے طلباء اور طالبات سے وصول کی جانے والی فیس کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی تھی ، اس رپورٹ کو بھی زمینی سطح پر اب تک پوری طرح سے روبہ عمل نہیں لایاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کے ججوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے علاوہ ضلعی سطح پر ججوں کی جو کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں ، انہوں نے ریاست کے مختلف علاقوں میں قائم تقریباً183نجی کوچنک مراکز کی رجسٹریشن اور وہاں دستیاب سہولیات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی لیکن ان کمیٹیوں کی رپورٹوں میں کی گئی سفارشات اور دی گئی ہدایات کو اب تک محکمہ تعلیم اور سیول انتظامیہ کے اعلیٰ حکام صحیح صورت میں روبہ عمل نہیں لاسکے ہیں۔ ڈویژن بینچ کا کہنا تھا کہ 30دسمبر 2014کو ریاستی ہائی کورٹ نے ڈویژنل کمشنر کشمیر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ سرینگر سمیت وادی کے مختلف علاقوں میں قائم نجی کوچنگ مراکز کی رجسٹریشن اور وہاں دستیاب سہولیات وغیرہ کے بارے میں تمام معلوما ت حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ریاستی ہائی کورٹ نے خصوصی کمیٹیاںتشکیل دے کر کوچنگ مراکز کی چیکنگ کرنے کی ہدایت دی تھی تاکہ بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ یہ مراکز جے اینڈ کے ریگولیشن آف پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرس رولز 2010کے تحت قائم کئے گئے ہیں کہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ہائی کورٹ نے دو ریٹائرڈ سینئر ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس کو یہ کام سونپا تھا کہ 183کوچنگ مراکز سے انکی رجسٹریشن اور وہاں دستیاب سہولیات کے بارے میں ضروری جانکاری حاصل کی جائے۔ ڈویژن بینچ نے کہا کہ جولائی2015میں ریاستی ہائی کورٹ نے 2پرنسپل ڈسڑکٹ اینڈ سیشنز ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کر انہیں جموں میں نجی کوچنگ مراکز کے بارے میں جانکاری لینے کا کام سونپا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام کمیٹیوں کو یہ بات یقینی بنانے کیلئے کہا گیا تھا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ کتنے نجی کوچنگ مراکز مستند یعنی رجسٹرڈہیں اور کتنے غیر مستند ہیں ۔ ڈویژن بینچ نے مفاد عامہ کے تحت دائر عرضی کو زیر سماعت لانے کے دوران بتایا کہ پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں یا کوچنگ مراکز کی رجسٹریشن سے متعلق قواعد و ضوابط کے تحت ہر کلاس کیلئے کم سے کم 10فیصد طلبہ کو مفت داخلہ دینا ضروری ہے ،جن میں غریب ، یتیم اور سماج کے غریب طبقوں سے وابستہ کنبوں کے بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔ جسٹس عطار اور جسٹس ماگرے نے اس اہم عرضی کی سماعت کے دوران بتایا کہ ابھی تک نجی کوچنگ مراکز کے مستند ہونے یا نہ ہونے نیز وہاں دستیاب سہولیات کے حوالے سے تصویر صاف نہیں ہے اور اس ضمن میں جموں اور کشمیر کے ڈویژنل کمشنروں کے علاوہ محکمہ تعلیم کے متعلقہ اعلیٰ حکام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جے اینڈ کے ریگولیشن آف پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرس رولز 2010کی روشنی میں اس بات کا پتہ لگائیں کہ ٹنل کے آر پار قائم نجی کوچنگ مراکز اور پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں کو رجسٹریشن حاصل ہے کہ نہیں اور کتنے ایسے مراکز میں آنے والے طلباء اور طالبات کو قواعد و ضوابط کے تحت تمام لازمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ڈویژن بینچ نے کشمیر اور جموں کے ڈویژنل کمشنروں کو ہدایت دی کہ وہ نجی کوچنگ مراکز کی رجسٹریشن اور وہاں دستیاب سہولیات کے علاوہ دیگر لازمی امورات سے متعلق مختلف کمیٹیوں کی ہدایات کو عملانے سے متعلق عمل درآمد رپورٹ عدالت عالیہ پیش کریں۔ڈویژن بینچ نے اس عرضی کی اگلی سماعت فروری2017کے تیسرے ہفتے میں مقرر رکھی۔(کے این ایس)