نئی دہلی//سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک تاریخی فیصلے میں مردو خواتین کے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والے 157 سال پرانے قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا۔چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 497 (غیر ازدواجی تعلقات) کو غیر آئینی قرار دیا۔عدالت نے اسی سے متعلق تعزیرات ہند (سی آر پی سی) کی دفعہ 198 کے ایک حصے کو بھی منسوخ کر دیا۔جسٹس مشرا نے خود اور جسٹس کھانولکر کی جانب سے جبکہ جسٹس نریمن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس ملہوترا نے اپنا اپنا فیصلہ سنایا۔ سب کی رائے تاہم ایک ہی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ خاتون کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات کو طلاق کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے لیکن اسے جرم نہیں قرار دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا''خواتین اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی اگر غلاموں کی طرح برتاؤ کرتا ہے تو یہ غلط ہے ۔ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہوتی''آئینی بنچ نے اٹلی میں رہ رہے کیرالہ کے رہائشی جوزف شائن کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔عرضی میں کہا گیا تھا کہ دفعہ497 مردوں کے غلبے والے سماج پر مبنی قانون ہے ۔ اس میں خاتون کے ساتھ بھیدبھاو ہوتا ہے ۔ اس قانون کے تحت خاتون کو عورت کی ملکیت سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اگر خاتون کے شوہر کی اجازت مل جاتی ہے تو ایسے تعلقات کو جرم نہیں مانا جاتاہے ۔جسٹس مشرا نے کہا کہ صرف غیر ازدواجی تعلقات کو جرم نہیں مانا جاسکتا، بلکہ اگر کوئی بیوی اپنے رفیق حیات کے ایسے تعلقات کی وجہ سے خود کشی کرتی ہے اور اس سے متعلق ثبوت ملتے ہیں تو یہ جرم (خودکشی کے لئے ورغلانے ) کے زمرہ میں آئے گا۔جسٹس مشرا نے کہا''ہم قانون بنانے کو لے کر مقننہ کی صلاحیت پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں، لیکن تعزیرات ہند کی دفعہ 497 میں'اجتماعی اچھائیاں' کہاں ہے ''۔ انہوں نے کہا، "شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا''۔جسٹس نریمن نے بھی فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497 قدیم دور کا قانون ہے ۔ یہ غیر آئینی ہے اور اس کو منسوخ کیا جانا چاہئے ۔جسٹس چندرچوڑ نے بھی ایسے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے کو گزرے زمانے کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497 عورت کی خود اعتمادی اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے ۔ یہ قانون عورت کو شوہر کے غلام کی طرح دیکھتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 497 عورت کو اس کی خواہش اورپسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اسلئے یہ غیر آئینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو شادی کے بعد اس کی پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔آئینی بنچ کی اکیلی خاتون جج اندو ملہوترا نے بھی غیر ازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والی دفعہ 497 کو غیر آئینی قرار دیا۔دفعہ 497 کے تحت اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ رضامندی سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اس خاتون کا شوہر عصمت دری کے نام پر اس مرد کے خلاف رپورٹ درج کرا سکتا ہے ، لیکن وہ اپنی بیوی کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ ساتھ ہی شادی کے بعد ناجائز جنسی تعلقات کے معاملہ میں شامل مرد کی بیوی بھی متعلقہ عورت کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکتی۔اس معاملہ میں عورت کو مجرم نہیں سمجھا جاتا، جبکہ مرد کو پانچ سال کی جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔موجودہ قانون کے مطابق کوئی شادی شدہ شخص کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے ، لیکن اس کے شوہر کی رضامندی نہیں لیتا ہے ، تو اسے پانچ سال تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے ۔لیکن جب شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے ، تو اسے اپنی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ غیر ازدواجی تعلقات مردوں کے دبدبہ والے سماج کی عکاس ہے ۔ اس میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھتا ہے ، کیونکہ اگر عورت کے شوہر کی رضامندی مل جاتی ہے ، تو اسے جرم نہیں سمجھا جاتا۔معاملہ کی سماعت کے دوران ایک اہم مسئلہ اٹھا تھا کہ کیا رضامندی سے بنائے گئے جسمانی تعلقات کو جرم کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے ۔یواین آئی
غیر ازدواجی تعلقات جرم نہیں

نئی دہلی//سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک تاریخی فیصلے میں مردو خواتین کے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والے 157 سال پرانے قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا۔چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 497 (غیر ازدواجی تعلقات) کو غیر آئینی قرار دیا۔عدالت نے اسی سے متعلق تعزیرات ہند (سی آر پی سی) کی دفعہ 198 کے ایک حصے کو بھی منسوخ کر دیا۔جسٹس مشرا نے خود اور جسٹس کھانولکر کی جانب سے جبکہ جسٹس نریمن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس ملہوترا نے اپنا اپنا فیصلہ سنایا۔ سب کی رائے تاہم ایک ہی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ خاتون کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات کو طلاق کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے لیکن اسے جرم نہیں قرار دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا''خواتین اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی اگر غلاموں کی طرح برتاؤ کرتا ہے تو یہ غلط ہے ۔ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہوتی''آئینی بنچ نے اٹلی میں رہ رہے کیرالہ کے رہائشی جوزف شائن کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔عرضی میں کہا گیا تھا کہ دفعہ497 مردوں کے غلبے والے سماج پر مبنی قانون ہے ۔ اس میں خاتون کے ساتھ بھیدبھاو ہوتا ہے ۔ اس قانون کے تحت خاتون کو عورت کی ملکیت سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اگر خاتون کے شوہر کی اجازت مل جاتی ہے تو ایسے تعلقات کو جرم نہیں مانا جاتاہے ۔جسٹس مشرا نے کہا کہ صرف غیر ازدواجی تعلقات کو جرم نہیں مانا جاسکتا، بلکہ اگر کوئی بیوی اپنے رفیق حیات کے ایسے تعلقات کی وجہ سے خود کشی کرتی ہے اور اس سے متعلق ثبوت ملتے ہیں تو یہ جرم (خودکشی کے لئے ورغلانے ) کے زمرہ میں آئے گا۔جسٹس مشرا نے کہا''ہم قانون بنانے کو لے کر مقننہ کی صلاحیت پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں، لیکن تعزیرات ہند کی دفعہ 497 میں'اجتماعی اچھائیاں' کہاں ہے ''۔ انہوں نے کہا، "شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا''۔جسٹس نریمن نے بھی فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497 قدیم دور کا قانون ہے ۔ یہ غیر آئینی ہے اور اس کو منسوخ کیا جانا چاہئے ۔جسٹس چندرچوڑ نے بھی ایسے غیرازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے کو گزرے زمانے کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 497 عورت کی خود اعتمادی اور وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہے ۔ یہ قانون عورت کو شوہر کے غلام کی طرح دیکھتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 497 عورت کو اس کی خواہش اورپسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اسلئے یہ غیر آئینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو شادی کے بعد اس کی پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔آئینی بنچ کی اکیلی خاتون جج اندو ملہوترا نے بھی غیر ازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے والی دفعہ 497 کو غیر آئینی قرار دیا۔دفعہ 497 کے تحت اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ رضامندی سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اس خاتون کا شوہر عصمت دری کے نام پر اس مرد کے خلاف رپورٹ درج کرا سکتا ہے ، لیکن وہ اپنی بیوی کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ ساتھ ہی شادی کے بعد ناجائز جنسی تعلقات کے معاملہ میں شامل مرد کی بیوی بھی متعلقہ عورت کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکتی۔اس معاملہ میں عورت کو مجرم نہیں سمجھا جاتا، جبکہ مرد کو پانچ سال کی جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔موجودہ قانون کے مطابق کوئی شادی شدہ شخص کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے ، لیکن اس کے شوہر کی رضامندی نہیں لیتا ہے ، تو اسے پانچ سال تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے ۔لیکن جب شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے ، تو اسے اپنی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ غیر ازدواجی تعلقات مردوں کے دبدبہ والے سماج کی عکاس ہے ۔ اس میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ عورت کو مرد کی ملکیت سمجھتا ہے ، کیونکہ اگر عورت کے شوہر کی رضامندی مل جاتی ہے ، تو اسے جرم نہیں سمجھا جاتا۔معاملہ کی سماعت کے دوران ایک اہم مسئلہ اٹھا تھا کہ کیا رضامندی سے بنائے گئے جسمانی تعلقات کو جرم کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے ۔
Leave a Comment