مصروف منظور
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟‘‘صحابہؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسولؐ خوب جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’اپنے بھائی کا اسطرح تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔‘‘عرض کیا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات واقعی موجود ہو جو میں کہتا ہوں؟ تو آپ ؐنے فرمایا:’’جو تم کہتے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر تہمت لگادی۔‘‘ (مسلم شریف)
جیسا کہ عنوان سے ہی پتہ چلتا ہے کہ غیبت ایک بدترین اور گنہانِ کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے۔بلکہ ترمذی شریف کے ایک حدیث کے مطابق غیبت کو زنا سے بھی شدید گناہ کہا گیا ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی شخص سے زنا کا ارتکاب ہوتا ہے وہ اگر فوراً توبہ کرتا ہے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے معاف فرمائیںگے۔لیکن غیبت اُس وقت تک معاف نہیں کی جاتی ہے جب تک وہ شخص معاف نہ کرے، جس کی پیٹھ پیچھے غیبت کی جائے۔
قرآن و حدیث ،اسلام کے دو بنیادی ماخذ کا موقف غیبت اور تہمت کے بارے میں واضح ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،’’تباہی ہے ہرطعنہ دینے والے ،عیب چننے والے کی۔‘‘(سورہ ہمزہ)۔کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرنا ہی غیبت ہے اور غیبت کی وعیدیں قرآن و حدیث میں زیادہ ہیں۔جس کی وجہ مفسرین کرام کے مطابق یہ ہے کہ اس گناہ کے تشدد میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں ہوتی جو اس میں شامل ہو تو بڑھتا چڑھتا ہی چلا جاتا ہے، اس لئے گناہ بڑے سے بڑا اورزیادہ سے زیادہ ہوتا جاتا ہے بخلاف آمنے سامنے کہنے کے کہ وہاں دوسرا بھی تعرض کے لئے تیار ہوتا ہے اس لئے گناہ میں کھینچائو نہیں ہوتا۔
سورة الحجرات کی آیت ١٢ میں اللہ تعالیٰ غیبت کے متعلق یوں فرماتے ہیں،’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائو گوشت اپنے بھائی کا،سو گھن آتا ہے تم کو اس سے۔‘‘اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جیسا کس مردہ مسلمان کا گوشت کھانا حرام،کمینگی اور رزالت کا کام ہے۔ برابر اسی طرح غیبت حرام بھی ہے اور رزالت بھی۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا ،جن کے ناخن تانبے کے تھےاور وہ اپنے چہروں اور بدن کا گوشت نوچ رہے تھے،میں نے جبریلؑ سے پوچھا ،یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت اور آبرو ریزی کرتے تھےاور ابو سعید خدریؓ کی روایت کردہ دوسرے حدیث میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا،’’الغیبة اشد من الزنا‘‘ یعنی غیبت زنا سے بھی زیادہ گناہ ہے،جس کا کارن ہم اوپر بیان کر چکےہیں۔اس سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ غیبت کتنا سنگین جرم ہے،مگر بدقسمتی سے یہ ہمیں گناہ ہی نہیں لگتا۔غیبت اور بدگوئی ہمارے معاشرے کا عام ظہور بن چکے ہیں۔ پہلے یہ بدترین عادت صرف عورتوں میں پایا جاتا تھا لیکن اب مرد حضرات بھی خصوصاً ہمارے بزرگ ،دکانوں اور عوامی جگہوں پر گروہوں میں بیٹھ کر اس بدترین فعل میں لگے رہتے ہیں۔درحقیقت غیبت ہمارا پسندیدہ فرصت کا مشغلہ اورہمارے اجتماعات،شادیوں وغیرہ میں تفریح کا ایک ذریعہ بن چکا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اسے کو خطرناک اور بدترین عادت بھی نہیں سمجھتے۔مگر اب قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم جان چکے ہیں کہ غیبت کتنا بدترن اور سنگین گناہ اور عادت ہے۔ لہٰذاہمیں چاہئے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرکے اس بدترین اور سنگین گناہ سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق دے۔( آمین)