غوطہ (شام) کے مسلمانوں کی مظلومیت اور بربریت کی داستانیں آئے روز سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر خاص خبر یں بن کر آرہی ہیں۔ قتل و غارت کے عبرت انگیز اور جگرسوز ویڈیوز دیکھ کر انسانیت کانپ اٹھتی ہے، خاص کرشام کے بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ وہ معصوم ہیں، بےقصور ہیںلیکن شامی صدر بشار الاسد کو اپنے تخت وتاج کے نشے میں اتنا گمراہ ہوچکاہے کہ ان بےکس و مجبور معصوموں کو بلی چڑھانے میںاُسے کوئی قباحت نظر نہیں آتی ۔ موصولہ رپوٹوں کے مطابق وہ نہتوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ۔ ظلم و جور کے ایسے پہاڑ مسلمانوں پر توڑے جارہے ہیں کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔اس وقت شامی مسلمان اپنے ملک اور دیارِ غیرمیں کسمپرسی اور مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شام کے شہر غوطہ پر اسد کا اتحادی روس اپنے ہتھیاروں کی مشق کرکے معصوم بچوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار رہا ہے ۔یہ ظلم وجبر دیکھ کر انسانیت شرمسار ہورہی ہیں،سینکڑوں بچے غوطہ کی حالیہ وحشیانہ بمباری میں شہید ہوئے ہیں،ان کی بےبسی ، بےکسی اور مظلومیت کا حال اس قدر خستہ ہے کہ اس کا اعتراف اقوام متحدہ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے مغرب نواز ادارے بھی بحالت مجبوری کررہے ہیں۔ غوطہ کے معصوم بچے اقوام عالم کے بشمول مسلمان بھائیوں سے تعاون اور مدد کی اپیلیں کررہے ہیں،وہ زندگی کی جنگ ہار رہے ہیں،وہ بےبس و بے سروسامان ہیں،وہ پکار پکار کہتے ہیں ہمارا کیا قصور ہے ؟ہمیں اس ظلم و بربریت سے بچاؤ !!!ہمیں اس ظالم و جابر حکمران سے نجات دلاؤ،کوئی مسلمان ہمارے دکھ و درد اور عذاب وعتاب کو محسوس تو کرےلیکن افسوس مسلم اقوام سمیت دنیا کے دیگر اقوام و ملل شامی مسلمانوں پر ہورہے اس بےانتہا ظلم و جور پر خاموش ہیں۔ ستاون مسلم ممالک کے سربراہان پر ان حالات میں کیا یہ فرض نہیں بنتا کہ مظلوم شامی مسلمانوں کو ظلم و تشدد کے چنگل سے نجات دلائیں ؟ کیا ان کا ضمیر اتنا مردہ ہوچکا ہے کہ روز ظلم کی رپورٹیں اور عبرت انگیز ویڈیوز دیکھ کر بھی اس ظلم و استبداد کے خلاف اُف تک نہیں کرتے ؟ کیا انسانیت مر چکی ہے اس لئے شامی مسلمانوں کی نسل کشی پر معمولی احتجاج بھی نہیں کرسکتی؟ مزید برآں OICاور مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کہاں ہیں ؟ کیا انہیں غوطہ کے معصوم بچوں کی چیخ وپکار ، لا شیں اور درد بھری آہیں نہیں سنائی دے رہیں ، اگر واقعی OIC کا کوئی وجود ہے تو شامی مسلمانوں پر ہورہے بے انتہا ظلم و جور پر اس کا دل کیوں نہیں پسیج رہا ہے؟
اسلام چونکہ دین انسانیت اور دین عدل ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس لیے مسلم اقوام پر لازم بنتا ہے کہ وہ مظلوم شامی بھائیوں کی فکر کرکے کم سے کم اپنا صدائے احتجاج بلند تو کریں۔بخاری شریف میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم مسلمانوں کو آپس میں رحم کرنے ، محبت کرنے اور ایک دوسرے کی طرف جھکنے میں ایسا دیکھے گا جیسا کہ جسم کا حال ہوتا ہے کہ اگر ایک عضو کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو جسم کے بقیہ اعضاء بے خوابی اور بخار کے ساتھ اسکا ساتھ دیتے ہیں"۔مسلمانوں میں وہ جذبہ ٔایثار کیوں نہیں دکھائی دےرہا جو صحابہ کرامؓ سے ہمیں ورثہ میں ملا ہے؟متاع دنیا میں غرق مسلمانو! ذرا غوطہ کے ان معصوم بچوں کی دردبھری پکار سن کر ان پر ترس کھاکر ظالم اسد کو ظلم و بربریت سے حتی الوسع روکنے کی کوشش کرو۔یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے آزمائش کی گھڑی ہے،یاد رکھئے اللہ تعالی رحمٰن و رحیم اور حلیم و کریم ہونے کے ساتھ ساتھ جبار و قہار بھی ہیں،وہ ظالموں کو دنیا میں ہی اپنے کئے کہ عبرتناک سزا دینے پر قادر ہیں،فرعون و نمرود کے قصے ،قوم عاد و ثمود کے کھنڈرات جیسی عذاب الہٰیہ کی نشانیاں ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں؟ ظلم پھر ظلم ہے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ وقت کی اذان یہی ہے کہ تمام کلمہ خوان شام بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم و جبرہورہاہے ، کے خلاف ایک ہو جائیں اور اپنی انسانیت اور مسلمانیت کا حق ادا کریں۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ظلم و جور سے نجات عطا کرکے محبت و اخوت اور استقامت کا عملی پیکر بنائے۔
رابطہ 9797082756