اشہرؔ اشرف
ریاست جموں و کشمیر میں جہاں سے تہذیب و تمدن کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں وہیں سے علم و ادب کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔ ریاست کے تینوں خطوں کا ذکر کیا جائے تو ادباء و شعراء کی ایک طویل فہرست ترتیب دی جاسکتی۔ قارئینِ شعر و ادب کی کم مائیگی اور زندگی کی گونا گوں مصروفیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں مذکورہ عنوان کے تحت اپنی گفتگو آگے بڑھاتا ہوں۔ غنی غیورؔ کا تعلق صوبہ جموں ضلع پونچھ سے ہے۔ اردو اور فارسی زبان پر یکساں دسترس رکھنے کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ پہاڑی، فارسی اور اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں اعلی پائے کا تنقیدی شعور بھی پایا جاتا ہے۔ کسی بھی فن پارے کے حوالے سے موصوف کی رائے اور خیالات سند کی اہمیت رکھتے ہیں۔ تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ ان کے تنقیدی و تجزیاتی مضامین آئے روز مقتدر اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔ اردو شاعری کی بات کی جائے تو موصوف ہر صنف میں شعر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عروض و معائب سخن پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ اردو غزل کا تذکرہ جب بھی چھیڑا جاتا ہے تو ولی ؔدکنی سے لیکن ناصرؔ کاظمی اور پھر فرؔاق سے لیکر فرازؔ، منیر نیاؔزی ، طفر اقبال و علی زیرک تک ہر ایک جہانِ سخن میں ایک ممتاز مقام پر نظر آتا ہے۔ نیز وقت بدلتے ہوئے انسانی مزاج و کیفیات میں تبدیلیاں رونما ہونا فطری ہے، جس کے چلتے ہر دور کے شعراء کے ہاں مضامین کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ ہیت کی پابندیوں کے باوجود غزل کی فطرت میں اسقدر لچک ہے کہ ہر شاعر نے اپنے تخلیقی ذوق اور مزاج کے مطابق اس میں تجربے کئے۔ کلاسکی شاعری کے عروج کی کوکھ سے جدید رجحانات نے جنم لیا تو اردو شاعری میں نئے استعارات و علامات کا اضافہ ہوا۔ جس زمانے میں غنی غیورؔ قافلہ، میرؔ و غالبؔ میں شامل ہونے کے لئے پر تول رہے تھے، اس وقت شعری منظر نامے پر جدید رجحانات غالب آرہے تھے۔ جس کے چلتے ان کی بیشتر شاعری پر اس کا نمایاں اثر نظر آتا ہے۔ اس لئے میرے نزدیک غنی غیوؔر کی غزلیہ شاعری جدید رجحانات کی ایک اہم کڑی ہے۔ موصوف کے کلام میں فکر و فن کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان کی غزل معاشرے میں پھیلی فرسودہ رسومات پر طنز کے نشتر ہیں۔ ان کی غزل میں زندگی کی حقیقتیں منعکس ہیں۔ غنی غیورؔ کو زبان و بیان پر مضبوط گرفت ہے،جو گہری اور پیچیدہ فکر و خیال کو آسان اور پُراثر انداز میں پیش کرنے میں ان کی معاونت کرتا ہے۔
غنی غیور کی شاعری میں زبان کی سادگی اور سلاست کے ساتھ ساتھ معانی و مطالب کی گہرایاں بھی ملتی ہیں۔ ان کے یہاں غزل صرف جذبات و خیالات اور مشاہدات کے اظہار کا وسیلہ نہیں ہے، بلکہ کاروانِ زیست کے مختلف جہات کی عکاس ہے۔ موصوف کی غزلیہ شاعری میں داخلی کرب و اضطراب، انسانی تعلقات، اور معاشرتی مسائل نئے اور اچھنبے انداز میں ابھر آتے ہیں ۔ ان کی غزل میں فکر و خیال کا تاثر اور فن کا توازن موجود ہیں، جو اردو غزل کو نہ صرف رنگین بنانے میں کار فرما ہیں، بلکہ اس کے لئے مستقبل کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ غنی غیورؔ متنوع موضوعات کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں اس قدر تہہ داری ہے کہ ہر لفظ میں کئی معانی سمائے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری گہرے مطالعے اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ غنی غیورؔ کو اپنے وطن سے محبت ہے۔ زندگی کا ہر سکھ چین اور آرام و آسائش میسر ہونے کے باوجود انھیں حبُّ الوطنی کا احساس سکوں سے رہنے نہیں دیتا ہے۔ کشمیر میں صدیوں سے جاری ظلم و جبر اور عدلیہ نا انصافیوں کے خلاف صدائے احتیاج بلند کرتے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام ‘ قلم قلم روشنی میں شامل ایک غزل میں معنوی تسلسل کے ساتھ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
حالتِ کشمیر پر آنسو بہا
اے قضا شمشیر پر آنسو بہا
لوگ آسودہ نہیں دیکھے غریب
درد کی تصویر پر آنسو بہا
وہ بڑے مظلوم ہیں اس دور کے
مصحف و تفصیر پر آنسو بہا
غنی غیور کی غزلوں میں علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں کا برجستہ استعمال ملتا ہے، جو ان کی شاعری میں ابہام پیدا کر کے معنی خیز بناتا ہے۔ جس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں۔درج ذیل اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں۔
میری آنکھوں نے نئی پرواز بھرنے کے لئے
پر نکالے آسمانی سیر کرنے کے لئے
گوہرِ مقصود ہے گہرے سمندر میں نہاں
سعی کر، گرداب سے تو بھی تو ابھرنے کے لئے
اک پرندے کی طرح تنہا سفر کرنا ہے اور
تاک میں بیٹھا شکاری پر کترنے کے لئے
اس کے علاوہ، ان کی شاعری میں رومانیت اور فلسفہ کا حسین امتزاج بھی ملتا ہے۔ ان کی تخلیقی سوچ اور تجربات اردو غزل کو ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں۔ غنی غیور کی شاعری میں علاماتی اور استعاراتی نظام ایک منظم صورت میں وجود پاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں لفظی سطح پر ظاہر ہونے والے معانی کے ساتھ ساتھ، ایک پوشیدہ اور پیچیدہ معنی کا بھی عندیہ ملتا ہے، جو قاری کو شاعری کی مزید گہرائیوں تک لے جانے میں کار فرما ہے۔ غنی غیور نے علامتوں اور استعاروں کے ذریعے محض انفرادی تجربات و مشاہدات کو بیان نہیں کیا بلکہ وہ سماجی، فلسفیانہ، اور روحانی سطحوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی شاعری میں علامتیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان علامتوں کے ذریعے وہ کسی مخصوص احساس یا خیال کو سلیس عبارت میں بیان کرنے کے بجائے گنجلک اور پیچیدہ تصویر کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ صحرا، دلدل، کنول ، کوئل، کبوتر، زاغ، دریا اور سمندر جیسے استعارات کا استعمال ان کی شاعری میں انسان کی مختلف جذباتی اور نفسیاتی حالت کو ظاہر کرنے کے لئے کیا گیا۔ غنی غیور کے اشعار میں استعاراتی نظام کو ایک خاص رنگ دیا گیا۔ موصوف عموماً اشیاء، پرندے ، پھول اور قدرتی مناظر و انسان کی مختلف حالتیں اور کیفیات کا استعمال استعارات کے طور پر کرتے ہیں۔ غنی غیور کا کمالِ فن ان کے اشعار میں استعارات اور علامتوں کے برجستہ استعمال میں ہے۔ ان کے یہاں ہر استعاراتی عنصر بڑی مہارت سے تخلیق پاتا ہے جو شاعر کی ذاتی کیفیات اور وسیع تر سماجی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ غنی غیور کی شاعری میں دعوتِ فکر ایک اہم عنصر ہے جو ان کی غزلوں کو نہ صرف جمالیاتی سطح پر منفرد بناتا ہے بلکہ قاری کو ذہنی و روحانی سطح پر بھی تحریک بخشتا ہے۔ موصوف کی شاعری گہری سوچ و فکر کے ساتھ ساتھ انسانی تجربات و مشاہدات اور معاشرتی مسائل پر عمیق غور و فکر کی طلبگار ہے۔
غنی غیور کی شاعری میں سماجی مسائل اور فلسفیانہ موضوعات بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی غزلیں انسان کے معاشرتی کردار، اس کے اصولوں، اقدار اور تبدیلیوں کی ضرورت پر سوال قائم کرتیں ہیں۔ وہ صرف ذاتی جذبات و احساسات کی بات نہیں کرتے، بلکہ انسانیت کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل کو بھی شاعری کا موضوع بناتے ہیں، جس سے قاری کے قلب و ذہن کے دریچے وا ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری انسان کو دنیا میں اپنی انفرادی و اجتمائی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے۔
اسلوبِ فکر:غنی غیور کا اسلوبِ فکر بہت منظم اور تخلیقی شعور کا حامل ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ایسے سوالات اور خیالات پیش کرتے ہیں جو قاری کو محض ایک لمحے کے لیے سوچنے پر نہیں بلکہ مسلسل غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ،ذات کے ساتھ ساتھ معاصر معاشرے میں ٹھہرے جمود کے خلاف ایک للکار ہے۔ موصوف انسان کو نہ صرف اپنے جذبات و خیالات اور مشاہدات و حادثات کا تجزیہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں بلکہ دنیا کو نئے انداز اور جدید زاویوں سے دیکھنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔الغرض، غنی غیورؔ ایک ہمہ جہت شاعر ہیں، جن کے یہاں موضوع کی تخلیقت خوبصورتی سے پروان چڑتی ہے۔ فارسی زبان سے محبت اور کلاسکی شعرء کے گہرے مطالعے کے سبب ان کی اردو شاعری میں بھی فارسی آمیز اشعار کی خاصی تعداد موجود ہے۔ غنی غیورؔ کی بیشتر شاعری ان کے اعلیٰ فکر و فن کی غماز ہے۔