سید مصطفیٰ احمد،بڈگام
اس چھوٹی سی زِندگی کا جب میں بغور جائزہ لیتا ہوں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کچھ مخصوص لوگوں کو چھوڑ کر کسی بھی شخص نے ہمارے غمگین دلوں پر ہاتھ نہیں رکھ کر یہ بولا ہو کہ غم نہ کرو، سب ٹھیک ہوگا۔اپنی ساتویں جماعت کی انگریزی کتاب میں ایک نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی۔اس میں مصنف نے ایک واقع کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ دکھوں کی وادیوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔اس وقت بہت سارے لوگ اس کو ملنے آئے۔کچھ لوگوں نے زبانی مداوا کرتے ہوئے اس کی زخمی روح کو تسکین پہنچانے کی کوشش کئی لیکن ان سب میں سے ایک انسان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی دُکھتی رگ کو چھو کر اس کی دادرسی کی۔اللہ کے کرم سے اس کا درد چلا گیا اور وہ شخص اس دادرسی کرنے والے شخص سے ملاقات کرنے کی غرض سے اس کے گھر چلا گیا۔وہ شخص اس سے مخاطب ہوکر بولتا ہے کہ جب تم نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا، اس وقت میری تباہ دنیا میں زندگی کی امید جنم لینے لگی۔تمہارے اس پیار بھرے لمس نے مجھے مصیبتوں سے لڑنے کا حوصلہ دیا۔اس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دکھ میں مبتلا ہے اور خاموشی سے طوفانوں کا تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے، اس وقت ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے، آنے والی سطروں میں اس کے تعلق سے کچھ مختصر باتیں کئی جارہی ہیں۔
زندگی پیار کا گیت ہے، اسے ہر دل کو گانا پڑے گا۔اس سطر میں زندگی کو پیار کا گیت تو کہا گیا ہے لیکن غم کے خزانوں کی بھی کوئی انتہا نہیں ہیں۔روتے ہوئے جاتے ہیں سب ہنستا ہوا جو جائے گا وہ مقدر کا سکندر کہلائے گا، کا جب ہم اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ زندگی کے دکھوں سے نبررآزما ہونے کے مطلق لکھنا اور بولنا آسان ہیں لیکن دکھوں سے لڑنا اور خوشیوں کے دنوں کا انتظار کرنا ،دو الگ چیزیں ہیں۔جیسے کہ غربت کتابوں میں حسین دکھائی دیتی ہے، اسی طرح دکھوں کا لفظی مداوا کتاب میں لکھنا بہت آسان کام ہے۔زندگی کے اندر جب ایک انسان جھانکتا ہے تو صرف دکھ کے پردوں سے ملاقات کرتا ہے۔ زندگی میں صرف غموں کی بارشیں ہوتی دکھائی پڑتی ہیں۔خوشیوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں دکھائی دیتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ خوشیاں ہم سے روٹھ کر دور جاچکی ہو۔اب جب کہ بیشتر لوگوں کا مقدر غم ہی ہے،تو ایسے میں کچھ فرشتے صفت لوگوں ہونے چاہیے جو غم کے اندھیروں میں امیدوں کے دیے جلائے۔جو دکھتی ہوئی رگوں پر اپنا ملائم ہاتھ پھیر کر ہمارے دکھوں کی شدت اور کڑواہٹ کو دور کرے۔جو بولے کہ غم نہ کرو، سب ٹھیک ہوگا۔جو ہمارے رونے پر روئے۔جب ہماری آنکھوں سے آنسوؤں کی دارے بہتے ہو، تو وہ پھوٹ پھوٹ کر ہمارے ساتھ روئے۔جب ہمارا دامن آنسوؤں سے بھیگ گیا ہو،تب وہ اپنا دامن بڑھا کر ہمارے نہ تھمنے والے اشکوں کو صاف کرتے ہوئے بولے کہ کوئی بات نہیں ہے غموں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ہیں۔غم آتے جاتے ہیں۔بس تم رونا مت۔دل کو تنگ مت کرنا۔موت کی امید مت کرنا۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔جب بھی میری ضرورت پڑے تم مجھے آواز دینا میں حاضر ہوجاؤں گا۔
آج کی دنیا پرانے زمانوں کی طرح ہنگاموں سے بھری پڑی ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے ہنگامے تھوڑا مختلف قسم کے ہیں۔اب جب کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ غموں کا بازار ہر طرف گرم ہیں تو ایسے میں علاج کا پتہ لگانا بھی ضروری ہے۔مداوا صرف اس شکل میں نکل کر آسکتا ہے کہ ہم کم از کم انسانوں کو انسان کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کریں۔کسی کے دکھ کو اس کے گناہوں کی سزا سمجھنے کی حماقت نہ کریں۔ دکھی انسان کے پاس بیٹھ کر اس سے پیار کے دو بول کر اس کے دل کا درد کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔اپنے اندر دوسروں کے درد کو سمجھنے کا مادہ پیدا کرنے کی بھی کوششیں کرنی چاہیے۔اگر کسی کی زندگی میں ہماری باتوں سے تھوڑا ہی مداوا ہوتا ہے، وہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ چلیے ایک وعدہ کرتے ہیں کہ جب بھی ہمیں موقع ملے، تو دوسروں کے درد میں شامل ضرور ہوجائیں گے۔اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
رابطہ۔ 7006031540
[email protected]>
�����������������