مفاد پرست اور اقتدار طلب سیاست کاروں اور اب اس دورڈ میں شامل نئے چہروں کی نظر میں کشمیر میں پولیٹکس کا ادارہ ایک جوئے خانہ کے مانند ہے جس میں جواری ذرا چالاکی دکھائے تو ’’ مقدر کا سکندرــ ـ‘‘ بننے میں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں جس کو وہ عبور نہ کرسکے۔ کل تک اس نے اپنی گردن میں اسیٹبلشمنٹ کا چاہئے کتنا بڑا زُنار کیوں نہ پہن رکھا ہو، آج الیکشن سیزن میں وہ اس کو اتارپھینکے اور اس کی جگہ سینٹمنٹ، آزادی کے سلوگن اور حق خود اداریت کے چند دھاگوں سے سِلی سبز رومال کو گھما تا پھرے۔یہ مشق اگر تھوڑی جدت کا تقاضا کرے تو ہندوستانی مسلمانوں کی ’’حالت زار‘‘ پر دو آنسو بہائے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ہورہی ’’ نہ رُکنے والی ہلاکتوں‘‘ کی نوحہ خوانی کرتا رہے۔ اس قسم کی قمار بازی کو جو جیتنا بلیک میل کرے اور ذائقہ بدلنے کیلئے جس قسم کی نت نئی فریب کاری کو تصنیف کرے، ’’آس کی سیاست ‘‘(politics of hope) کے مریض اس کے نغمہ سراہوں گے۔ ڈاکٹر شاہ فیصل اسی بازارِ سیاست کے ایک نئے آرٹسٹ(اداکار) کی صورت میں واردِ محفل ہوچکے ہیں اورروز کرتب بازی کے جونئے جوہر دکھاتے چلے آرہے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں ہمیں کوئی بخل نہیں کہ وہ کافی ریاضت کرکے اور اپنے دوستوں اورمربیوں سے صلاح و مشورہ کرکے آئے ہیں۔
دو سوال بہت اہم ہیں جس کی گرہ کشائی سے ہم فیصل کے اس تازہ اقدام کو ان کے مستقبل کے ارادوں کو بھی بھانپ سکتے ہیں۔ آج ستم رسیدہ کشمیری عوام کے دکھ درد اور ہلاکتوں پر وہ جس طرح دست جفاکیش کو پانی پی کرکوستے ہیں ،کیا ماضی قریب و بعید میں اس طرح کی ذرا سی جنیشِ لب ان سے سرزد ہوئی ؟ اور دوسرے، آج ہی جب ریاستی اسمبلی کا چنائو شیڈول جاری ہونے جارہا ہے، وہ اس قدر بے تاب کیوں چناوی پراسیس کا حصہ بننے کے لئے ؟ قسمت کا ستارہ ان کے ساتھ رہا، فیصل آئی ائے ایس کے ٹاپر کے طور پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ۔ 2010میں جوں کہ بھارت کو کشمیر میں عوامی مزاحمت کے دوسرے انتفادعہ کا سامنا تھا اور کالجوں اور یونیورسٹوں کے زیر تعلیم طلاب آزادی کے جذبے سے سرشار تھے اور دنیا ایک بار پھر بھارت کے جمہوری دعوئوں کا مذاق اڑا رہی تھی، اس لئے فیصل کو بہتر مستقبل کی علامت کے طور پر پروجیکٹ کیا گیا ۔ یہ وہی 2010کا سال تھا جب 120نہتے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور ہزاروں کو عمر بھر کے لئے معذور بنادیا گیا ۔ شاہ فیصل نے کشمیری عوال کی اس پر امن جدوجہد کو تشدد سے تعبیر کرنے میں کسی شرم و حیاء کا پاس و لحاط نہ کیا ۔ جس بڑے پیمانے پر بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور حکومت کے کارندے فیصل کو اچھالتے رہے، اسی تناسب سے وہ تحریک مزاحمت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے اس نے کہا ’’ وقت آچکا ہے کہ ہم تشدد کے اس کاروبار کو چھوڑ کر امن کی کانسٹی چیونسی کو اپنائیں (گریٹر کشمیر 8مئی 2010) حالانکہ ابھی تک مزاحمت ابتدائی دور کے مہینوں میں تھی۔ صاف ظاہر ہے دلی جس طرح کا پروپگنڈا تحریک کو مطعون کرنے کیلئے کررہی تھی ، فیصل شرح صدر کے ساتھ اس کا حصہ بنتے جارہے تھے اور پر امن مظاہروں پر تشددپرست کی لیبل لگا کر بھارت جس طرح عام شہریوں کو ہلاکتوں کا دفاع کرتا تھا ، فیصل بھی قریب قریب یہی بولی بولتا تھا۔ اب ایک بیروکریٹ ہوتے ہوئے وہ سائوتھ بلاک کے ایک معتمد کی حیثیت سے اپنی پہنچان بنا چکا تھا۔ اور جیسا کہ بعد کے واقعات نے دکھا دیا، اپنی پوزیشن اور امیج اور صلاحیتوں کو انہوں نے آزادی کے سنٹیمنٹ اور کشمیری عوام کو ڈیسکریڈٹ کرنے کیلئے بلا ناگہ استعمال کیا۔ 2016میں حزب کے مقبول ترین عسکری کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد جس قسم کے حالات یہاں رونما ہوئے ،خود بھارت کے بعض ممتاز سیاسی رہنمائوں، دانشوروں اور صحافیوں کی نظروں میں وہ ’’ عوامی انقلاب‘‘ سے کم نہ تھا۔ لیکن فیصل نے استصواب کے مطالبے کے حق میں برپا پر امن عوامی جدوجہد پر بھی شدید حملے کئے۔سو سے زیادہ لوگوں ،جن میں بیشتر کم سن نوجوان تھے،کی جانیں بارود کی نذر ہوگئیں۔ہزار سے زائد اندھے بنائے گئے۔ نیویارک ٹائمز نے پیلٹ کے ذریعے اندھا کردینے کی اس انسانیت سوز کاروائی کو ’’ڈیڈ آئیز اپیڈیمک‘‘ کا نام دے کر سیکولر اور ڈیموکریٹک حکمرانوں کا چہرہ دنیا کو دکھا یا مگر اس شاہ فیصل نے جب زبان کھولی تو کسی مظلوم کشمیری کے حق میں نہیں۔ بینائی سے محروم کسی کم سن بچی کے حق میں نہیں،جرم بے گناہی میں مارے گئے کسی نوجوان کے حق میں ہی نہیں بلکہ جب بھی قلم و دہن کا استعمال کیا ، بدنصیب اور ستم رشیدہ مظلومین کو ظالم کے صف میں کھڑا کیا اور اپنی قدوقامت اور صلاحیتوں کا استعمال کرکے بدنامی کا سارا کیچڑ اپنی ہی قوم پر ڈالا۔ خدا کی شان، آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ ایک کلیک پر آج اور کل کے متصادم کردار کے لوگوں کی اداکاریوں اور منافقانہ طرز عمل کو پرکھا جاسکتا ہے۔ 28دسمبر2016کو شاہ فیصل کا انڈین ایکسپریس میں اپنا ایک مضمون بعوان’’kashmir trapped in deadly politics of breif, must abandon macabre heroism‘‘ چھپا۔ مضمون کا عنوان مندرجات کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے۔ وہ ایک جھٹکے سے پوری تحریک کو دحشت ناک ہیروازم کی شناخت دے کر حملہ آور ہوتے ہی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی عینک سے خالص انسانی و سیاسی حقوق کی بازیابی کے حق میں اٹھی عوامی تحریک اور اپنا سب کچھ دائو پر لگانے والے کشمیری عوام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اور طنزاً انہیں ’’ پولٹیکلس آف ہوپ‘‘(Politics of hope) کی ماری قوم قرار دیتا ہے جو بقول اس کے اس قوم کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ اتناہی نہیں ، بجائے اس کے وہ بھارت کے نیتائوں سے پوچھے کہ کشمیری عوام ستر سال سے کیوں بھارت سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں، الٹا یہ من گھڑت الزام کشمیریوں پر لگاتے ہیں کہ کشمیری آپس میں متصادم ہیں اور تحریک مزاحمت ’’ عوامی تشدد‘‘ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔(13جنوری 2017کو گریٹر کشمیر میں میرا جوبی مضمون بعنوان (Trapped in servitude)شائع ہوا، (ہوسکے تو پڑھئے) فیصل کا بالکل یہ وہی بیانیہ ہے جو ہم آئے روز دلی دربار یا اس کے بھیجے گئے وظیفہ خواروں کی زبانی سنتے رہتے ہیں۔
بیروکریٹک لائف کا خمار لیتے ہوئے پورے سات آٹھ برس تک فیصل سسٹم کے گن گاتے رہے اور جب اور جہاں ضرورت محسوس کی، یاکرائی گئی، وہ سول پوشاک میں ملبوس ہوکر اپنا غصہ مزاحمت پر نکالتے رہے اور اس سب کو جائز قرار دیتے گئے جس کو دلی والوں نے جائز ٹھہرایا۔ اب اچانک وہ خود کو کشمیری عوام کے سینٹمنٹ کے محافظ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ان کو اب حق خود اداریت ، استصواب ، آزادی جیسے سلوگن کو اپنی سیاسی لغت کا حصہ بنانے میں کوئی قباحت نہیں ۔ کل تک ’’پولٹیکس آف گریف‘‘ کو گلے لگانے پر اسی قوم کو برا بھلا کہتے تھے۔ اب کہتے ہیں کہ اس سینٹمنٹ، جس سے پولٹکس آف گریف جنم لے چکی ہے، کو اپنے اخلاص کے جامے عنایت کریں گے۔ یہ تبدیلی! یہ گھر واپسی! میرے خدایہ کیا ہے!۔
جذبہ آزادی سے کشمیریوں کو والہانہ لگائو اور عقیدت ہے ، اس کے لئے ان کی قربانیوں کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا اور ناہی کسی طور ڈائیلوٹ کرسکتا ہے۔ بیچ کھانے کا سوال ہی کہاں۔بھارت نواز سیاست کار اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں ،اسی لئے وہ بھارت نوازی کا کلنک ماتھے پر لگانے کے باوصف الیکشن سیزن میں سنٹیمنٹ کے خلاف کچھ نہیں بولتے بلکہ ان کالہجہ اور انداز گفتگو اس بات کا تاثر دیتا ہے کہ ’’ وہ بھی کوئی پرائے نہیں اپنے ہی ہیں، بس ذراء اقتدار کی ہڈی سے وہ تھوڑے بدلتے ہیں‘‘۔ یاد ہے نا آپ کو ابلیس نے آدم اور حوا کو کس طرح اپنے جھال میں پھنسایا۔ خیر خواہی کے جاموں میں آکر ان کو حیات جاوداں کی بشارت دی۔ ابتک سلف رول اور اٹانومی اور اس سے قبل محاذ رائے شماری والوں نے سادہ لوحی کے راستے ہی سے ہمیں اس حالت تک پہنچادیا۔ فیصل کی بشارتیں کچھ نئی نہیں ہیں۔
اور ہاں ایک دنیا کو معلوم ہے،حالیہ بلدیاتی اور پنچایتی الیکشن میں کشمیر کی غالب اکثریت نے جس طرح ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس سے تخت دہلی چاہے ظاہری طور ’’کامیابی‘‘ کے کتنے بلند وبانگ دعوے کرے،کوعوامی بیزاری کے بڑھتے رجحان کا بخوبی احساس ہوچکا ہے۔خود انڈین میڈیا کے باضمیر طبقے مثلاً انڈین ایکسپریس نے ان کو فراڈقرار دیا اور کہا کہ اب تک کے جتنے برے چنائو کشمیر میں کرائے گئے ،حالیہ انتخابات بالخصوص بلدیاتی انتخابات نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دلی اب ہر طرح سے کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طرح آنے والے چنائو میں عوام کی شرکت میں اضافہ ہو، تاکہ دنیا کو منہ دکھانے کا قابل ہوں اور’’ اٹوٹ انگ‘‘ کی تھیوری کے غبارے سے حالیہ الیکشن نے جس طرح ہوا نکالی، اس کو پھر سے مضبوط کیا جاسکے۔ شاہ فیصل اسی اسٹیٹس کو پالیٹکس کا حصہ ہے اور جیسا کہ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ہندوستانی ہیں اور سسٹم کا حصہ ہیں ، اس لئے جس طرح بیورو کریٹ بنکر انہوں نے سسٹم کی خدمت کی، اب سیاسی روپ دھارن کئے وہ بھارت کے کشمیر پر کلیم کو مضبوط کرنے جارہے ہیں۔ وہ اس اقتداری سیاست کو، جو کشمیرمیں اپنی ساکھ کھوچکی ہے ، کو بااعتبار ٹھہرانے کا مشن لئے ہوئے ہے۔ لیکن ایک بات وہ اور ان کی طرح کے دوسرے لوگ یاد رکھیں کہ کشمیریوں کو اب کوئی بیوقوف نہیں بناسکتا ۔وہ اتنا سمجھ چکے ہیں کہ فیصل کی نوکری چھوڑنے کے پیچھے عزائم کار فرماہیں،وہ وہی ہیں جو اقتدار طلب لیڈروں کے چہروں سے صاف جھلکتے ہیں۔ فیصل بڑے کیرئیر کی تلاش میں سیاست کی ہریالی گھاس سے لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر اس لذت کے تعاقب میں وہ کیا کھوئے جارہے ہیں ، اس کا احساس ان کو بہت جلد ہوگا۔
بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر