زاہد ایک شریف لڑکا ہے۔اس کے والد نہیں ہیں ۔وہ یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٖفکر مند بیٹا ہے اوروالد کے وفات کے بعد اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔اس کی ماں بہت نیک ہے جس کا اثر اس پر بھی پڑا ہے۔وہ بھی اپنی ماں سے بے حد محبت کرتا ہے۔وہ18سال کا ہے لیکن آج بھی اپنی ماں کے پاس ہی سوتا ہے اور جب تک ماں اس کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتی اُسے تب تک نیند ہی نہیں آتی ۔زاہد کے کچھ دوست ہیں لیکن ان میں ایک دوست فیصل، اُس سے خوش نہیں ہے بلکہ اس کی کامیابی پر حسد کرتا ہے۔کبھی کبھار فیصل زاہد کے سامنے ایسی باتیں کرتا ہے کہ جیسے اس کا سگا بھائی ہو لیکن پیٹ پیچھے اس کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ زاہد سے بھی یہ سب چھپا نہیں بلکہ وہ فیصل کی حرکتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔
ایک روز زاہد کوسکن الرجی (skin allergy)ہوئی جس کی وجہ سے وہ اور اس کی ماں رات بھر جاگتے رہے کیوں کہ بیٹے کی پریشانی ماں کی پریشانی ہوتی ہے۔صبح ماں اٹھی اور سے تڑپتے بیٹے کو ڈاکٹر کے پا س چلنے کیلئے کہا۔
لیکن اس کی ضدتھی کہ وہ اسکول سے لوٹنے کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جائے گا ۔ اچھا ماں میں اب چلتا ہوں اللہ حافظ۔وہ ماں سے رخصت ہوکر سکول گیا۔ سکول سے لوٹنے کے بعد جب وہ ڈاکٹر کے پاس گیا تو اپنے (skin Infection) کے بارے میں ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ رات بھر نہیں سویا ،’’ ڈاکٹر صاحب کیا میں جلدی ٹھیک ہوجاؤں گا؟‘‘ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
وہ جب گھر کی طرف چلا تو راستے میں اُسے فیصل ملا۔
فیصل:زاہد تم کہاں تھے ؟
زاہد:فیصل میں ڈاکڑ کے پاس گیا تھا مجھے (skin Infection)ہوا ہے ،اب ڈاکڑ نے دوائی دی ،اب گھر جا رہا ہوں۔
فیصل ایک شاطر لڑکاتھا۔ اس نے ز اہد کی بیماری کا فائدہ اٹھایا اور اس کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھائے رکھی۔اسے لگا کہ اسی بات سے اُس کا مقصدحل ہو جائے گااور زاہد کو بدنام کرنے کی کوئی راہ نہیں چھوڑی ۔ جو کوئی بھی ملتا تھا اس کو کہتا تھا کہ زاہد کو ایڈس AIDSہوا ہے ۔یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی جس کی وجہ سے زاہدکی ماں کو بھی پتا چلا اور اس نے اپنے بیٹے سے بات کرنی چھوڑدی۔زاہد کو اس بات سے بہت دکھ ہوا۔اس نے اس بدنامی کی وجہ سے اسکول جانا بھی بند کردیا۔اس کی ماں کو لوگ باتیں سنانے لگے اب وہ اس کے سر پر ہاتھ بھی نہیں رکھتی تھی۔ان دونوں کے بیچ جو محبت تھی وہ اب بے رخی میں تبدیل ہوگئی۔زاہد، جو اپنی ماں کے بغیر کبھی سوتا ہی نہیں غلط فہمی کی وجہ سے ماں سے دور ہونے لگا اور دونوں کے بیچ دوریاں بڑ ھنے لگی۔
زاہد معصوم اور بے گناہ تھا لیکن ایک غلط فہمی کی وجہ سے وہ دنیا کی نظروں میں گناہ گار بن گیا۔اب اس کی راتوں کی نیند بھی غائب ہوگئی۔اس کی ساری رات روتے روتے گزرتی تھی۔اس نے اب کھانا پینا چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہونے لگا۔وہ بیچ بیچ میں ڈاکڑ کے پاس جاتا تھا۔اب اس کا سکن انفیکشن(skin Infection)بھی ٹھیک ہوا تھا۔اس کو اندرہی اندر یہ پریشانی کھا ئے جارہی تھی کہ اب سماج میں اُس کوئی عزت نہیں رہی ۔وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا۔ کھانا چھوڑنے کی وجہ سے وہ اب اٹُھ بھی نہیں پا رہا تھا۔زاہد اور اس کی ماں ایک ہی گھر میں رہ کر بھی ایک دوسرے کو نہیں دیکھتے تھے۔یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلتا رہا اور ایک دن زاہد کی ماں نے سوچا کہ میں خود ہی اس کو کھانا دوں۔ جب اس نے زاہد کے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ آخری سانسیںلے رہا ہے۔اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھااور یہ آنسوں ماں کی طرف سوال کر رہے تھے کہ ماں کاش آپ مجھے ایک باراپنی گود میں لے لیتی اور میرے سر پر ہاتھ رکھتی؟یہ دیکھ کر اس کی ماں نے اس کو ہسپتال لے گئی لیکن بدقسمتی سے وہ بچ نہ سکا۔ڈاکڑ نے اس کی ماں سے کہاکہ یہ اچھا لڑکا تھا۔ بیچ بیچ میں یہ میرے پاس آتا تھا کیوں کہ اس کوسکن انفیکشن (skin Infection)تھا ۔ اس کی ماں نے ڈاکڑ سے کہا کہ کیا اس کوایڈس (AIDS) بھی تھا ۔ڈاکڑ نے کہا کہ نہیں وہ تو اس کے ایک دوست نے اس کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی تھی ۔یہ باتیںسن کر اس کی ماںکو گہرا صدمہ لگا۔
فیصل نے جب زاہد کے موت کی خبر سنی تو وہ بھاگتا ہوا اس کی قبر پر گیا۔فیصل زور زور سے چلاتا رہا،روتا رہا لیکن بہت دیر ہوگئی تھی۔ فیصل کو بہت پچھتاوا ہوا کہ اُس نے ایک ماں کواس کے بیٹے سے جداکردیا۔فیصل کی ایک غلط فہمی سے زاہد کی زندگی چلی گئی جس کا افسوس اسے زندگی بھر رہا ،کاش زاہد کی ماں پہلے ہی اپنے بیٹے پر بھروسہ کرتی تو وہ اپنے بیٹے کو کبھی نہ کھوتی۔
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ کشمیر
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو بھگونت یونی ورسٹی آف اجمیر راجستھان