غور طلب
ندیم خان
بے شک اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ انسان سے غلطیاں سر زد ہوسکتی ہیں۔اس دنیا میں کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے، ہر انسان میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر انسان کی اپنی ایک زندگی ہے جسے وہ اپنی مرضی اور من پسند طریقوں سے گزارنا چاہتا ہےاور اس عمل کے دوران کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی طرح کی کوئی غلطی،خطا یا کوتاہی ہوتی رہتی ہے۔ کوئی اپنی غلطی قبول کرکے اِس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو کوئی اس کا الزام دوسروں پر ڈالتا رہتا ہے،جس کے نتیجہ میںاُس کا نقصان ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ زندگی میں واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی غلطیوں کو قبول کرنا سیکھیں۔ چھوٹی ہو یا بڑی، غلطی تو غلطی ہوتی ہے، مگر کم ہی لوگ ایسا کرپاتے ہیں۔ زیادہ تر تو اپنی غلطی کا اعتراف تو کرتے نہیںبلکہ اس کا الزام دوسروں پر ہی ڈالتے ہیں۔حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا ہے مگر اُن کی اَنّا اُنہیں اپنی غلطی قبول کرنے سے روکتی ہے۔ زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب ہماری غلطی کی وجہ سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ رشتے میں دراڑ پڑتی ہےیارشتہ ہی ٹوٹ جاتا ہے یا کسی کا کریئر داؤ پہ لگ جاتا ہے۔بہت کم لوگ ایسے ہیںجو اپنی غلطی سب کے سامنے قبول کرنے کی جرأت کر پاتے ہیں۔ اپنی اَکڑ اور اَنا کے سبب لوگ جُھکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انہیں لگتا ہے کہ دوسروں کے سامنے غلطی قبول کرنے سے ان کی عزت کم ہوجائے گی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسا کرکے سامنے والے کی نظروں میں اُن کی عزت بڑھ جاتی ہے۔ ذرا اپنے آس پاس نظر دوڑائیے۔ گھر، آفس، پڑوس، آپ کو زیادہ تر وہی لوگ دکھائی دیں گے جو کوئی بھی غلطی کرنے کے بعد بھی اَکڑ کر کھڑے رہتے ہیں۔حالانکہ حق بات تو یہی ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والے یا اپنی غلطی پر معافی مانگنے والے لوگوں کی ہر جگہ تعریف کی جاتی ہے۔ ایسے شخص نیک دل اور اچھے انسان کہلاتے ہیں لیکن غلطی قبول نہ کرنے والے لوگوں پر کوئی جلدی یقین نہیں کرتا، وہ جھوٹے لوگوں کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ جان بوجھ کر انجان بن کے رہنا یعنی بھول کو قبول نہ کرکے ہم کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ہمارا ضمیر کبھی نہ کبھی اس چیز کے لئے ہمیں ضرور جھنجھوڑتا ہے، بھلے ہی سب کے سامنے ہم شیر بنے پھیریں مگر احساس ِجرم کے سبب ہم پُر سکون نہیں رہتے۔ مثال کے طور پر آپ کی کسی غلطی کے سبب گھر میں کسی رشتے میں دراڑ آگئی۔ آپ لوگوں کے سامنے بھلے ہی اس غلطی کو قبول نہ کریں مگر تنہائی میں آپ کو ضرور احساس ہوگا کہ رشتے میں دراڑ کا سبب آپ ہیں اور یہ احساس آپ کو سکون سے جینے نہیں دے گا۔ جو انسان اپنی غلطیاں قبول کرکے اس سے سبق سیکھ کر مستقبل میں اِسے دہرانے سے بچتا ہے، حقیقت میں وہی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔ آپ کو دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور اس طرح کی غلطی دوبارہ نہ کریں، جو آپ پہلے کرچکے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر آپ بے وقوف ہی ہیں۔ جو شخص زندگی کے اس سفر میں جتنی غلطیاں کرے گا، وہ اتنا ہی سمجھ دار ہوگا۔ اب ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ ہم نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ یعنی غلطیاں کرکے ہمیں اتنا تجربہ حاصل ہوا ہے۔ کئی فیصلے ایسے ہیں جن پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ جیسے شادی یا کریئر کا فیصلہ، کیونکہ یہ کوئی لباس خریدنے کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا تعلق آپ کی تمام عمر اور زندگی سے ہے۔ خاص طور پر جب آپ کسی بھی رشتے کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیشہ مثبت سوچئے کہ اگر کوئی بھی غلطی ہوگئی ہے تو وہ اتنی بڑی نہیں کہ وہ آپ کی زندگی کو ہی ختم کردے۔
جب کبھی آپ کو لگے کہ آپ نے کسی کا دل دکھایا ہے یا آپ سے کوئی بھول ہوگئی ہے تو بغیر کسی جھجک کے سب سے پہلے اسے قبول کریں۔ اکیلے میں خود سے پوچھیں کہ جو آپ نے کیا، کیا وہ صحیح ہے؟ اگر نہیں تو ہمت کرکے آگے آئیں اور اپنی غلطی قبول کرکے آگے سے ایسا نہ کرنے کا عہد کریں۔ غلطی کا احساس ہونے پر معافی مانگنے سے کترائیں نہیں، معافی طلب کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اپنی غلطی کے لئے کبھی بھی دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں، بعض اوقات وہ سود مند اور فائدے کا سودا ثابت ہوتے ہیں۔ یا کم از کم ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ہم اُن سے کس طرح فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم سبھوں نے یہ کہاوت سن رکھی ہے کہ ‘آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، اور یہ درست بھی ہے کہ کوشش کرنے اور غلطی کرنے سے ہمارا ذہن اور ہمارا ہُنر بڑھتا ہے۔ ایسے کسی بچے کے بارے میں سوچیں جو چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے یا کسی جمناسٹ کے بارے میں ،جو کسی عمل پر مشق کر رہا ہویا پھر کسی مقابلے میں شامل بیکر کے بارے میں سوچیں جو جج کو متاثر کرنے سے قبل ایک ہی قسم کے کیک کو 20 بار بناتا ہے۔ مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے ہمیں اپنے ذہن کو کھولنے میں مدد ملتی ہے یا اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ذہن پر محنت کرنے سے اس میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ 123 بچوں کو ذہین بنانے کے مطالعے کے دوران انھوں نے یہ دیکھا کہ جنھوں نے اپنی غلطیوں پر زیادہ توجہ دی ،انھوں نے زیادہ سیکھا۔
لوگوں کو جب دُکھ ملتا ہے یا جب وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں تو اکثر لوگ پھر اس کی وجوہات ڈھونڈنتے ہیں اور اپنی غلطی سے سیکھ کر نارمل زندگی گزارنا شروع کرتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بعض لوگ اس غلطی سے پہلے اپنی زندگی بے مقصد گزار رہے تھے لیکن جب اس غلطی کے بعد ان کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب آگیا اور انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد پہچانا اور کامیابی کی حصول تک پہنچ گئے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جان بوجھ کر غلطی کیا کریں،بالکل نہیں! بلکہ آپ سے انجانے میں جو غلطی ہوجائے، اس سے مایوس ہونے سے بچنا ہے۔ اگر آپ کو اندازہ ہے کہ آپ اکثر غلطیاں کر جاتے ہیں تو آپ ان غلطیوں کی ایک لسٹ بنا لیں اور پھر ان پر قابو پانے کا منصوبہ بنائیں جیسے ایک انسان کو اونچا بولنے کی عادت ہے، وہ بزرگوں کے سامنے بھی اونچا بولتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اس غلطی پر قابو پا لے گا تو وہ گفتگو کے آداب سیکھ کر اس ایک غلطی کی وجہ سے اپنے اندر کئی مثبت تبدیلیاں لائے گا، گویاوہ ایک غلطی اس کی شخصیت کو بدلنے کا سبب بنی۔ اردو زبان کا ایک محاورہ ہے کہ’’انسان خطا کا پتلا ہے‘‘اور ایک بہترین انسان وہی ہے جو اپنی غلطیوں اور خطاؤں سے کچھ سبق حاصل کرے اور آئندہ زندگی میں اس غلطی کو نا دہرانے کا عہد کرلے کیونکہ ماضی پر جلنے کڑھنے اور خود کو قصور وار ٹھہرانے سے صرف انسان کا وقت اور قوت ہی ضائع ہوتی ہے اور حاصل ہوتا ہے تو صرف ذہنی انتشار اور بے سکونی۔
(رابطہ۔ 9596571542)
[email protected]