ریحانہ شجر
ایک شاعر یا قلمکار بنیادی طور پر تخلیق کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اپنے وجود اور احساس و شعور کی بنیاد پر نہ صرف مخلوق ہے بلکہ خالق بھی ہے۔کبھی وہ تخیل کی دنیا میں گم ہوجاتا ہے تو کبھی ساری دنیا کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی چاہ رکھتا ہے۔ کبھی احساس کی راہوں پر چل کر فکر کے آکاش کو چھوتا ہے۔ کہیں اپنی بےبسی اور مجبوری پر خون کے آنسو روتا ہے۔ کہیں آسمان کے آنگن سے چاند تارے توڑ کر اپنے من کے ویرانے سجا دیتا ہے۔ قلمکار بندۂ خدا ہونے کے ساتھ ساتھ بندۂ نفس بھی ہوتا ہے۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس کو حالات کا رخ بدل دینے کی طلب رہتی ہے۔ غم دوران سے پریشان اور کبھی غم جانان میں گرفتار رہنا ایک تخلیق کار کا
مقدر ہے۔کاینات کے بسیط مشاہدات اور قلب و ذہن کی واردات کو لطیف پیراہے میں بیاں کرنا ادیب کی اولین صفت ہے۔ کیونکہ قدرت نے اس سے ایسی بصیرت عنایت کی ہوئی ہے جو عام انسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں ۔
دردمند دل رکھنے والے، خاموش اور متوازن لہجے سے آراستہ ہماری وادی کے معروف افسانہ نگار، اور ادیب محترم غلام نبی شاہد صاحب اپنے آپ میں ایک سمندر ہے۔ جن کی اردو نثری نظموں کا مجموعہ حال ہی میں منصۂ شہود پر آچکا ہے۔ جو سادہ اسلوب اور خاموش تلاطم ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ وہی خوموش طغیانی ان کی نظموں میں بھی عیاں ہے۔
شاہد صاحب کا اسی کے قریب نثری نظموں پر مشتمل مجموعہ زیر عنوان’’چاند گواہ ہے‘‘ پڑھیے تو پہلی نظر میں بڑے ہی سادہ الفاظ اور سیدھے سادے خیالات نظر آتے ہیں لیکن بین السطور ان میں گہرا فکری عمق اور پختگی کارفرما ہے۔ عام الفاظ میں تحریر کردہ نظمیں اپنے اندر کئی کئی پرتیں سموئے ہوئے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر ادب پارہ اپنے اندر سچائی کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ شاہد صاحب کا قلم تخیل کے رنگین سبزہ زاروں میں گلگشت نہیں کرتا بلکہ وہ دل کی آنکھ سے عصری ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لے کر فن پارے تخلیق کرتا ہے۔شاہد صاحب اپنی باطنی کیفیات کو ابھارنے کے خاطر تشبیہات و استعارات یا پیچیدہ باتوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ سبک اور پیچ و خم سے عاری الفاظ سے اپنا پیغام قاری تک پہنچاتے ہیں ۔ ایک نظم ملاحظہ فرمائے۔
کل کہیں جارہا تھا
اچانک
میرا سایہ مجھ سے الگ ہوا
وہ سر اٹھا کر آگے بڑھا
میں نے زور سے آواز دی
مجھ سے اتنا گریز کیوں
بولا
تم سر جھکا کر چلتے ہو۔۔۔!
اس نظم میں ان کیلئے سبق ہے، جو خوف یا مایوسی کی وجہ سے جھک جاتے ہیں ،جبکہ خوداری اور اعتماد ہی وہ خوبیاں ہیں جو انسان کو بلند مقام دیتی ہیں ۔ سایے کا سر اٹھا کر چلنا خود اعتمادی اور عزت نفس کی علامت ہے۔اگر ہم اپنی خوداری کھو دیں تو ہمارا سایہ ( وجود ) بھی ہمارا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔کئی نظموں میں دھیمی رفتار سے بہنے والی نہروں کی روانی کا احساس ہوتا ہے۔کئی ٹھاٹھے مارتی ہوئی ندیوں کا جوش نظر آتاہے۔ جس کی حسین جھلک زیر عنوان نظم ’’ان کہی‘‘ اور’’تنہا گھر ‘‘ جیسی نظموں میں ملتی ہے۔
میں کچھ اور لکھوں،تم کچھ اور سمجھنا
اب یہ طے ہوا ہے،جو لکھا نہیں گیا
وہ پڑھا جائے گا۔۔۔!
لکھنے والا کچھ لکھتا ہے اور پڑھنے والا کچھ اور معنی اخذ کرتا ہے۔ غلط فہمیوں اور تعلقات درمیان خلیج کا اظہار ہے اور یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جو کچھ لکھا ہی نہیں گیا وہی پڑھا جائے گا۔ یہ اس نظم کا سطحی مفہوم ہے۔ لیکن دروں بینی سے دیکھا جائے تو معنی اور بھی ہے۔
ایک کے بعد ایک
سب چلے گئے
گھر خالی ہوگیا
ایک ایک کا ماتم
کیا میں نے
شام ہوئی
اب میرا ماتم کون کریگا!
مفہوم: تنہائی ، جدائی کے غم اور وقت کے ساتھ سب کے چلے جانے کے المیے پر روشنی ڈالی ہے۔ ہر ایک کا ماتم کیا اور اب شام ڈھلنے کو ہے یعنی زندگی کا سورج غروب ہونے کو ہے، اب میرا ماتم کون کریگا۔ایک اور معنی یہ بھی ہے۔ فتنے اور فسادات کی وجہ سے گھروں کے گھر اجڑ گئے ۔ گھر سے مراد بستی خالی ہوگئی۔ میں نے ایک ایک کا سوگ منایا ۔ اب تنہا میں زندگی کی ڈھلتی شام میں اکیلا سوچ رہا ہوں کہ میرا ماتم کون کرے گا ۔یاس اور ناامیدی کے بادلوں کے بعد ذہن کو روشن کرنے والی نظم ’’میں ‘‘ قابل تحسین ہے۔ جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں :
میں سچ ہوں
میں جیت جاؤں گا
مجھے کویی نہیں ہرا سکتا
میں قلم ہوں
کاغذ ہر سمندر لکھوں گا
اور تم
عنقریب
اپنے تمام لشکر کے ساتھ
اس میں
ڈوب جاو گے!
مفہوم:حق اور باطل کا ہر دور میں اختلاف رہا ہے۔ قلم کو کتنا بھی زنجیروں میں جھکڑا جانے وہ لکھنے سے باز نہیں آتا ۔ ادیب سچا ہو تو اس کے قلم سے سچائی کی سیاہی پھوٹ پڑتی ہے اور باطل کتنا ہی طاقتور ہو آخر گمنامی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔
کئی نظموں میں شاہد صاحب کا اپنے ہم عصر اور ہمکار احباب کا تذکرہ اور دوستوں سے والہانہ انسلاک اور لگاؤ بھی ملتا ہے۔ جن میں ’’شوکت شہری ‘‘،’’یعقوب دلکش کے نام‘‘ اور ’’انشا کے نام‘‘ قابل ذکر ہے۔شاہد صاحب کی نظمیں پڑھتے پڑھتے یہی گمان گزرتا ہے کہ کوئی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ جن کا تعلق کہیں نہ کہیں ہمارے ساتھ ہے۔
نثری نظموں کے اس انمول مجموعے سے پہلے ان کا افسانوی مجموعہ زیر عنوان ’’اعلان جاری ہے‘‘ 2013 میں چھپ چکا ہے۔جس کے بارے میں ہماری وادی کے نامور افسانہ نگار محترم نور شاہ یوں رقمطراز ہیں:’’شاہد صاحب کی شخصیت میں سادگی اور بھولاپن ہے اور ان کے افسانوں میں سچ ہے اورسچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کی کہانیوں کی خاموشیوں میں جو آواز سنائی دیتی ہے وہ دلوں کو چھوتی ہے، ذہن کو جھنجھوڑتی ہے اور بار بار اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ کچھ ہوگیا ہے کچھ ہو رہا ہےاور کچھ ہونے والا ہے۔ کیا ہوا ہے کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے یہ سب کچھ ’’اعلان جاری ہے‘‘ میں پوشیدہ ہے!‘‘یہی سادگی اور سچائی کی جھلک ان کے نثری نظموں میں بھی عیاں ہے۔آخر میں یہ کہنا لازمی ہے ان کے مزاج سخن اورفکر کی نزاکت دیکھ کر فیض احمد فیض کا یہ شعر زبان پر آگیا۔
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
دعا ہے کہ شاہد صاحب کا اَشہب قلم صنف سخن کے ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا رہے۔ آمین
[email protected]