خِراماں جب کوئی منصور سوئے دار ہوتا ہے
تو ظاہر بیں سے حیرت کا ہی پھر اظہار ہوتا ہے
جہاں والوں کو اِس سے کیوں بھلا آزار ہوتا ہے
بچار اعشق تو رُسوا سرِ بازار ہوتا ہے
دلِ پرُ درد سب کا مونس و غمخوار ہوتا ہے
یہ تھوڑا سا گِلہ بھی بُھولنا دشوار ہوتا ہے
سُنہرا وقت وہ جو رائگاں اک بار ہوتا ہے
دوُبارہ اِس کو پانا کس قدر دشوار ہوتا ہے
نہیں ہے شاعری ذہنی تخیُل شعر میں بھرنا
کلام ایسا سبق جس میں نہ ہو بیکار ہوتا ہے
غزل میں کوئی بس یہ عشق کا رونا ہی کیوں روئے
حقیقی علم ہی سرمایہ ء اشعار ہوتا ہے
ہیں جنسی بھوک و نوش و خور سبھی شہوات نفسانی
یہ میرا تجربہ ہے اِن سے دل ہوتا ہے
مجھے اب تو بچالے نفس کی شہوات سے یارب
کہ ان سے مرضِ رُوح و قلب میں تیار ہوتا ہے
تخیُل شاعرانہ یہ نہیں حکمت کی باتیں ہیں
کہ مقصد شعر کا حکمت ہی کا اظہار ہوتا ہے
خیالوں میں بھلا کب تک رہو گے اے بشیرؔاب تُم
یہاں علم و عمل سے ہی تو بیڑا پار ہوتا ہے
بشیر احمد بشیرؔ (ابن نشاط) کشتواڑی
موبائل: 9018487470
خلا ہے تنگ ہونے دو
امن پہ جنگ ہونے دو
میں شیشہ بن کے ٹکراوں
اسے تو سنگ ہونے دو
قبائے تن سے باہر آ
تپسیا بھنگ ہونے دو
متاعِ خامشی کیا ہے
کلیمی گنگ ہونے دو
ہمیں بھی رنگ لے جاناں
ذرا بے رنگ ہونے دو
الجھ اے گیسوئے برہم
سماں بے ڈھنگ ہونے دو
سکوتِ پیش آئینہ
پسِ رخ زنگ ہونے دو
سواد ِآہ لے لینا
سرودِ چنگ ہونے دو
کہ حرفِ گمشدہ ہوں میں
جنوں فرہنگ ہونے دو
فسونِ شب نچوڑوں گا
رگِ سارنگ ہونے دو
ہر اک دھڑکن تری شیداؔ
دلِ آہنگ ہونے دو
علی شیداؔ
( نجدہ ون ) نپورہ اسلام آباد کشمیر
9419045087
شعلوں کی حکومت ہے چمن زیر و زبر ہے
موسم ہے بہاروں کا مگر رَقصِ شر رہے
سوچو تو ہر اِک دل میں ہیں نفرت کے شرارے
دیکھو تو ہر اِک شخص بہم شیر و شکر ہے
مظلوم سے ہمدردیاں ظالم سے رہ و رسم
اے چارہ گرِ غم تو اِدھر ہے کہ اُدھر ہے
گھر میں جو چُھپے بیٹھے ہیں اُن کو بھی تو دیکھو
باہر کے حریفوں پہ تو ہم سب کی نظرہے
اِک آنکھ کی قِسمت کہ جو آنسو ہے وہ پانی
اِک آنکھ میں جو اشک ہے مانندِ گہر ہے
اِک حال پہ ٹھہرا ہے نہ ٹھہرے گا زمانہ
ہر صُبح کی اک شام ہے ہر شب کی سحر ہے
ہیں اہلِ نظر درد کی دولت سے تہی دل
دل جس کو میسر ہے وہ محرومِ نظر ہے
بِکھرے ہیں درو بام پہ تابندہ حقائق
سونے کا نہیں وقت یہ ہنگامِ سحر ہے
سر لے کے ہتھیلی پہ یہاں لوگ مسافرؔ
یہ راہِ عزیمت ہے شہادت کا سفر ہے
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ،9419064259
روبرو جو آئینہ ہوتا رہا
رات بھر میں جاگتا روتا رہا
میں غلامی کر رہا ہوں رات دن
نفس کی سن کر سکوں کھوتا رہا
دامنِ تر دیکھ کے حیران ہو
داغِ عصیاں اشک سے دھوتا رہا
کیا خبر تھی چاند تکتا تھا مجھے
بے خبر میں رات بھر سوتا رہا
وہ بھی ذوق و شوق سے سنتا گیا
یوں بیاں قصہ مرا ہوتا رہا
فصل عارضؔ دھان کی اُگتی کہاں
بیج جب خاشاک کے بوتا رہا
عارضؔ ارشاد
نوہٹہ، سرینگر ،9419060276
راحتِ دل کے کبھی سامان بہت تھے
ایسا نہیں تھا اپنے مہربان بہت تھے
ملنے کو ملا ہی نہ کوئی خضر سا رہبر
کہنے کو میرے شہر میں انسان بہت تھے
دستِ دعا، نہ چشم نہ ہی سراُٹھا سکے
ورنہ وصالِ یار کے امکان بہت تھے
الزام، سزا، غم کبھی آنسوں کبھی فراق
تیری عنایتوں کے بھی عنوان بہت تھے
دل میں مقیم اپنے جزُ غالبِؔ نہیں ٹھہرا
ورنہ جہاں میں صاحبِ دیوان بہت تھے
گھر میں رہے سفر میں کہ حضر میں ایک بات
حق تو یہ ہے کہ سوختہ سامان بہت تھے
اب کہتی ہے دنیا جسے منیبؔ بُت شناس
وہ پہلے پہل صاحبِ ایمان بہت تھے
مرزا ارشاد منیب ؔ
ناجن بیروہ،موبائل نمبر:9858114735
بہا کر خون دل، کی ہیں چمن آرائیاں ہم نے
گلوں کو مسکراہٹ دی، عنا دل کو فغاں ہم نے
سبھی احباب وہمدم ،ہم سفر بھی رہ گئے پیچھے
اکیلے ہی بڑھایا سوئے منزل کارواں ہم نے
بہار آتے چمن میں ہم کو یکسر بھول جاتے ہیں
مگر گلشن کے گل بوٹوں پر چھوڑے ہیں نشاں ہم نے
ہیں مہر و ماہ و اختر اور شفق کون ومکاں شاہد
سکھایا نوع انسان کو طریقِ قدسیاںہم نے
گرز گاہوں یہ مل کرہم سے رخ وہ موڑ لیتے ہیں
بچھائے جن کی راہوں میں نگاہ و قلب وجاں ہم نے
یقین سالمؔ ہے ہم کو سرخروئی، سرفرازی کا
ہزاروں بار دھرتی پہ دیا ہے امتحان ہم نے
سہیل سالمؔ
رعناواری سری نگر،ربطہ نمبر:9697330636