کیاجانے کیسے جال بچھاجاتی ہیں نظریں
جب جب بھی میرے پاس کبھی آتی ہیں نظریں
ہوجاتی ہیں نشتر کی طرح جذب وہ اس میں
کیاکیا نہ ستِم دِل پہ میرے ڈھاتی ہیں نظریں
میں کہنا بھی چاہوں تو کبھی کہہ نہیں سکتا
اب کیسے کہوں کِتنا رُلا جاتی ہیں نظریں
یہ جان وجگرکرتاہوں میں اُن پہ نچھاور
انکارنہیں مجھ کوکبھی بھاتی ہیں نظریں
ہم زندگی میں شام وسحرساتھ رہے ہیں
افسانے کئی یاددِلا جاتی ہیں نظریں
پھرنیند نہیں آتی کسِی طور بھی مُجھ کو
راتوں کومجھے ایسے جگاجاتی ہیں نظریں
میں پھربھی ہتاشؔ اِس کی شکایت نہیں کرتا
میرے لیے بے چینیاں بھی لاتی ہیںنظریں
پیارے ہتاشؔ
رابطہ نمبر؛:8493853607
اس کا جنت سے کوئی رشتہ ہے
بے سہاروں کا وہ سہارا ہے
چاند تاروں میں روشنی ہے بہت
کیا وہاں آج کوئی میلہ ہے؟
روز و شب میں بھی دشمنی ہے عجب
ایک دوجے کے پیچھے رہتا ہے
عدل پھرتا ہے سر چھپائے ہوئے
تان کر سینہ ظلم چلتا ہے
سچ پہ بالکل یقیں نہیں آتا
جھوٹ کا اتنا بول بالا ہے
سچ یہاں کون بولتا ہے شمسؔ
سچ پہ جھوٹوں کا سخت پہرہ ہے
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اْتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر
کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر
تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر
مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیّاری پر
کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر
بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اْتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر
نزاکت ایوب منہاس
درہال راجوری
موبائل نمبر 9622022380
فقیروں کا نہ سلطانوں کا استقبال کرتے ہیں
ہم انساں ہیں ہم انسانوں کا استقبال کرتے ہیں
عجب عالم ہے میرے شہر کے خود دار لوگوں کا
ستم کشتہ ستم رانوں کا استقبال کرتے ہیں
اُٹھو ائے خستہ جانو چاک دامانوں میں آجائو
کہ دیوانے ہی دیوانوں کا استقبال کرتے ہیں
وہ قاتل ہے جو زخمِ لَب کُشا سے خوف کھاتا ہے
وہ ہم ہیں جو نمک دانوں کا استقبال کرتے ہیں
ہمارے حرف ہائے معتبر بھی ہیں گِراں اُن پر
ہم اُن کے کتنے فرمانوں کا استقبال کرتے ہیں
اب اِس سے بڑھ کے دورِ کم نگاہی اور کیا ہوگا
کہ دانشور بھی نادانوں کا اِستقبال کرتے ہیں
اِسی باعث تو آتے ہیں یہ درد و غم ہمارے گھر
کہ ہم اِن اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں
اِنہیں کے فیض سے آباد ہیں زنجیر کے حلقے
یہ دیوانے ہی زندانوں کا استقبال کرتے ہیں
مسافرؔ خودبخود اُن کو سمجھ کر آپ کا قاصد
نہ جانے کتنے اَنجانوں کا استقبال کرتے ہیں
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ
موبائل نمبر؛9419064259
گرد کے بادل میں کیا اور کچھ نہیں
قیس ہے جلوہ نما اور کچھ نہیں
دل فگاری‘ دیدئہ تر کا سبب
آپکی ترکِ وفا اور کچھ نہیں
تشنگی میں گھر کو جائے کیا خیال
واں ہے جام اوندھا پڑا اور کچھ نہیں
تنگ دستی میں گزاری زندگی
نذرجُز حرف دعا اور کچھ نہیں
اب تلک زندہ تھے بس اس زعم میں
در د ہوجائے دوا اور کچھ نہیں
ہائے رے اپنی غزل مرزا منیبؔ
دشت میں ہے اک صدا اور کچھ نہیں
مرزا ارشاد منیبؔ
ناجن بیروہ رابطہ: 9906486481
گھر پہ میر ے وہ جا نِ قرار آ گیا
بن کے صحرا میں جیسے بہار، آ گیا
اُس کے آتے ہی ایسا سماں بندھ گیا
میرے گھر کا گھروں میں شمار آگیا
اِک حقیقت تھی یا پھر کہ اِک خواب تھا
عنبریں زلف اپنی سنوار آگیا
گھر کے دیوار و در سب سنور کیا گئے
تا جِ اُلفت میں جیسے نکھا ر آگیا
اُس نے گھونگھٹ ہٹایا بڑے شوق سے
میری آنکھوں میں منیؔ خمار آ گیا
ہر یش کمار منیؔ بھد رواہی
موبائل نمبر؛9596888463