اُڑان کا جو سلیقہ نظر میں رکھتا ہے
وہ آسمان کو بھی بال و پر میں رکھتا ہے
مقابلے کا ہُنر تاکہ وہ بُھلا نہ سکے
ہمیشہ اپنا سفینہ بھنور میں رکھتا ہے
اُسے خیال ہے کتنا بھٹکنے والوں کا
چراغِ نقشِ قدم رہگزر میں رکھتا ہے
نگاہ بھر کے زمانے کو دیکھنے کے لئے
زمانے بھر کو وہ اپنے اثر میں رکھتا ہے
گُماں نہیں ہے کسی اور کی ستائش کا
یقیں وہ اپنے ہی عیب و ہُنر میں رکھتا
ہجوم ِ رنج سے وہ مانگتا ہے تنہائی
بنائے صبر و سکوں شور و شر میں رکھتا ہے
مآلِ شوق میں پاتا ہے آبلہ پائی
قدم جو پہلے پہل اس سفر میں رکھتا ہے
جھکی ہی جاتی ہے پیشانی احترام کے ساتھ
یہ کون شخص ہے کیا سنگِ در میں رکھتا ہے
ڈاکٹر سید شبیب رضوی
اندرون کاٹھی دروازہ رعنا واری سرینگر 9906885395
لوحِ دل پر ہے مری اِرقام تیری جستجو
صبح کو ہے جستجو، ہر شام تیری جستجو
دوش پر اپنے پھراتی ہے ازل ہی سے ہوا
اے حسیں، تیرا حسیں تر نام، تیری جستجو
برگِ گل پر قطرہ ٔشبنم لکھے مدحت تری
ہے نسیم ِصبح کا پیغام تیری جستجو
تابع طاغوت میرے دیدہ ور کا فکر و فن
بے حمیت کا نہیں ہے کام تیری جستجو
جستجو تیری نہیں ہے ہر کسی کے بس کی بات
جو نہ قسمت سے ملے انعام تیری جستجو
جرم اس سے پہلے بھی مشتاقؔ ہے جو کر چکا
آج ہے اس پر وہی الزام تیری جستجو
مشتاقؔ کاشمیری
ہم آخر تمہیں بھی جدا کر چلے ہیں
نمازِ محبت ادا کر چلے ہیں
چلے ہیں تمہیں دے کر یادوں کا تحفہ
بچھڑتے ہوئے بھی وفا کر چلے ہیں
نہیں توڑے ہم نے کبھی اپنے وعدے
سبھی اپنے وعدے نبھا کر چلے ہیں
بہاریں صدا ٹھہریں تیرے چمن میں
خزاں نا لگے یہ دُعا کر چلے ہیں
یہ گلشن تمہارا، تم ہی باغباں ہو
نظارہ کیا الوداع کر چلے ہیں
دعا ہے ضیائیؔ صدا خوش رہو تم
ہم آخر میں خود کو رُلا کر چلے ہیں
امتیاز احمد ضیائیؔ
رابطہ؛9697618435
ہمیں اک دِن یقیں مانو زمانہ دُور کر دے گا
تُمہارے ہجر ِ کا موسم بدن کو چُور کر دے گا
سُنا تھا عِشق میں بہتا ہے اکثر خون آنکھوں سے
کِسے معلوم تھا دل اِس قدر مجبور کر دے گا
یہ موسم راس آئے گا یقینا ہم فقیروں کو
ہمارا یہ جنوں ہمکو بہت مشہور کر دے گا
گھڑی بھر کے لئے سارے چراغوں کوبُجھاڈالو
رُخِ روشن تُمہارا، بزم کو پُر نور کر دے گا
فضائیں راس کب آتی ہیں جنت کی، دوانوں کو
ہوا کا ایک جھونکا زخم کو ناسور کر دے گا
نہیں جاویدـؔ رِندوں کو ضرورت جام و مینا کی
بہاروںکا حسیں موسم ہمیں مسرور کر دے گا
سردار جاوید خان مینڈھرپونچھ
فون نمبر9419175198