چند دن قبل عالم اسلام کا ایک مظلوم ومقہورخطۂ ارضی فلسطین کو صیہونی فوج نے بم اور بارود نے پھرایک بارلہو لہان کر دیا۔تازہ تفصیلات کے مطابق ۱۴ ؍اور ۱۵؍مئی کو غزہ میں امریکہ کے سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف فلسطینیوں نے پر امن احتجاج کیا جس کے ردِ عمل میں صہیونی فوجیوں نے ایک بار پھر اپنا بھیانک اور مکرہ چہرا دکھا کر نہتے اور مظلوم عوام پر بندوقوں کے دہانے کھول دیے ۔اس کے نتیجے میں ۶۰؍سے زائد احتجاجی شہید اورسینکڑوں زخمی ہو گئے اور زخمیوں میںکچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو زندگی بھر کے لئے اب اپاہج ہو گئے ہیں ۔کئی ماہ قبل اسرائیل کے ناجائز باپ امریکہ نے اپنا سفارت خانہ تل ایب سے یروشلم (بیت المقدس) منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک نے امریکی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ (ایک مردہ ادارہ ) اور نام نا اہل آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن(او آئی سی)نے بھی امریکہ کے اس فیصلے کوغلط قرار دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی امریکہ نے اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے ان تمام احتجاج اور مخالفتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ۱۴ ِ مئی کو اپنا سفارت خانہ تل ایب سے یروشلم منتقل کر دیا۔
آج سے قریب ۷۰ سال قبل۱۴ مئی ۱۹۴۷ء میں عالمی ائمہ کفر نے مل کر فلسطین پر ناجائز وناپاک قبضہ جمایالیکن ستر سال گزرنے کے باوجود بھی مظلوم فلسطینیوں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیابلکہ جذبۂ جہاد اور شوق شہادت سے سر شار ہو کے یہودیوں کو للکارا۔ مائوں نے اپنے معصوم بچوں کوسجا سنوار کر میدانِ کارزار میں اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے لئے اپنا سر کٹانے کے لئے تیار کیا۔ سفارت خانے کی منتقلی کے بعداسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں آج ہر روز چالیس سے پچاس ہزار فلسطینی شامل ہوتے ہیںاور حفاظتی باڑ کے ساتھ کھڑے ہو کر اسرائیل پر پتھر پھنکتے ہیں جس کے جواب میں اسرائیل کی فوج راست گولیاں مارتی ہے ۔اس کے باوجود بھی قبلۂ اول کی حفاظت کے لئے فلسطینی بہادری اور جرأت سے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایسی بھی تصوریریں دیکھیں گئی جس میں ٹانگوں سے معذورایک جوان جو کہ چند سال پہلے صہیونی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنی ٹانگوں سے محروم ہو چُکا تھا، قبلۂ اوّل کی حفاظت کی خاطر وہ معذور نوجوان وہیل چیر پر بیٹھ کر فوج پر پتھر پھینکتا تھا اور گذشتہ ہفتہ اپنے اس کام کو جاری رکھتے ہوئے اس معذور انسان کو بھی نہیں بخشا گیا اورراست گولیوں کا نشانہ بنا کر اُسے شہید کر دیا گیا۔
عالم کفر کا کام تو ازل سے یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کی زمین اور وہاں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جائے، مسلمانوں کومارا اور کاٹا جائے اوران کی زندگیاں اجیرن بنا دی جائیں ۔یہ تو عالم کفر کا بنیادی کام ہے ،غرض عالم کفر اسلام کو مٹانے کی خاطر یک جُٹ ہے ۔ عالم اسلام کو اس وقت ایک ہونے کی ضرورت تھی لیکن شومئی قسمت عالم اسلام کا شیرازہ بکھر چُکا ہے۔ مسلمان ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں جس کا فائدہ عالم کفر نے اُٹھایا ہے اور وہ(حضورؐ کی ایک حدیث کے عین مطابق) مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکھے کھانے پر ۔آج کا المیہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں کوئی قائد یا لیڈر بیت المقدس کے لئے آگے آنے کی کی جُرات بھی کرتا ہے تو اسکو نام نہاد مسلم طاقتیں اور جماعتیں اس قائد کے خلاف چالیں چلتے ہیں ،اس کو عوام کے سامنے بد ظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ مسلکی اور جماعتی رنگ دے کر اس کو پیش کیا جاتا ہے ۔جس کی مثال ہمارے سامنے ترکی کے رجب طیب اردگان کی ہے جو ایک واحد اسلامی لیڈر ہے جس نے امریکا سے اپنا سفیر اور سفارتی ٹیم کو واپس بلایا۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس قائد کو بھی دنیا کے سامنے ایک دوسرے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ،جو کام نام نہاد اسلامی ممالک کے حکمران ہی سر انجام دیتے ہیں ۔یہ وہی فلسطین ہے جس کو عمر بن خطاب نے فتح کیا تھا ،جی ہاں یہ وہی پاک سر زمین ہے جس کو صلاح الدین ایوبی نے صہیونیوں سے آزاد کیا تھا۔آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیاددہ ہو گئی ہے۔ ۵۷ آزاد اسلامی ممالک اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ موجود ہیں، ایٹم بم بھی موجود ہیں، اس کے باوجود بھی بیت المقدس صہیونیوں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین کے مسلمانون کا قتل عام ایسے کر رہے ہیں جیسے ان کہ اُن کی زندگی جینے کا کوئی حق حاصل نہیں،واحسرتا۔۔۔!
شرق و غرب کا کفر ایک ہو کر مسلمانوں کانام و نشان مٹانے کی ناکام و نا مراد کوششیں کر رہا ہے ۔اس کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہو گا کہ اس وقت وائٹ ہاوس کے ترجمان راج شاہ نامی ایک بھارت نثراد عہدیدار نے حماس کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا ۔صرف تینتیس سالہ راج شاہ اس وقت وائٹ ہاوس میں پرنسپل ڈپٹی سیکر ٹری اور صدر ٹرمپ کے ڈپٹی اسسٹنٹ بھی ہیں ،ان کا تعلق بھارت کی گجرات ریاست سے ہے ۔غرض عالم کفر میں مسلمانوں اور خاص کر بیت المقدس کو ہڑپنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں اور دوسری طرف دنیا کی بڑی طاقتوں کے علاوہ سعودی عرب کے نئے ولیٔ عہد شہزادہ محمد بن سلمان ، جو اسرائیل کو اپنا دوست بھی قرار دے چکے ہیں ، اُمت مسلمہ کی طرف سے مشترکہ کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ ۴۰ اسلامی ممالک کی فوج بھی بنا چکے ہیں مگر فوج کو جس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا ،وہ مقصد ان کو اپنے نجی مفادات پر بھاری لگتا ہے ۔دوسری جانب مصر کے فرعون صفت فوجی صدر السیسی نے ترکی جہازوں پر اپنے حدود میں سفر پر پابندی عائد کر دی ہے، وہ اس لئے کیوں کہ ترکی اپنے جہازوں کے ذریعے سے غزہ کے زخمیوں کا علاج و معالجہ کرتا تھا۔
یہ تمام گھمبیرصورت حال اس وقت امت مسلمہ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر ہم نے آج بھی اپنے اختلافات کو ختم نہیں کیا،تو وہ دن دور نہیں جب دنیا کی سامراجی طاقتیں ہمیں نگل لیں گی ۔اس وقت سعودی عرب اور ایران کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور ایک ہو کر ترکی کا ساتھ دے کر غاصب اسرئیل کو میدان عمل میں للکاریں ۔جو طاقت وہ ایک دوسرے کے خلاف اسلامی اخوت کو لتاڑتے ہوئے استعمال کر رہے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا اگر یہ ملک کر عالم کفر کے خلاف اپنی طاقت کو استعمال میں لاتے ۔ دنیا کے اسلامی ممالک کو اس وقت غیرت کا مظاہرہ کر کے امریکہ سے اپنے سفارت کار واپس بلا لینے چائیں اور ان درندوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جانا چاہیے ۔ نیز جن معدودے مسلم ملکوں کے اسرا ئیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں، انہیں ملی غیرت کا ثبوت دے کر یہ روابط کاٹ دینے چاہیے ،تب جا کر یہ درندے قابو میں آسکتے ہیں ۔ہمیں اقوام متحدہ پر کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہیے وہ تو امریکہ اور اسرائیل کا ایک کٹھ پتلی ادارہ ہے، جو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا کر مسلمانوں کا قتل عام کرانے میں اپنا بھر پور تعاون فراہم کر رہا ہے۔ او آئی سی کو چاہیے کہ اس بحرانی معاملے میں مؤثر رول ادا کر ے مگر ابھی تک اس کا کوئی قابل ذکر رول سامنے نہیں آیا، جس پر اُمت مسلمہ مین اس تنظیم کے حوالے سے مایوسی ہونا قدرتی بات ہے ۔ علاوہ ازیںہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پرفلسطین اور قبلۂ اوّل کے حوالے سے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے ، جب کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں جن میں پاکستان ،سعودی عرب ،ایران اور ترکی کا رول اہم بنتا ہے، کو چاہیے کہ یک جُٹ ہو کر اس صہیونی ریاست کے خلاف ہر سطح پر بھر پور جدوجہد کریں، تب جا کر امریکہ اورر اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے مظالم کو بند کرے گا ۔مسلم اُمہ کو اس سلسلے میں ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ یروشلم سے واپس منتقل کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ اگر ہم نے آج اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو وہ وقت عنقریب ہے جب ہمیں فلسطین کو دنیا کے نقشے میں ڈھونڈنا پڑے گا ۔اللہ ایسا نہ کرے ۔
رابطہ نمبر ۔9906664012