اس ہفتے کے آغاز میں عالمی صیہونیت کے پجاری ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں پہ ایک اور تیکھا وار کیا ۔ امریکی صدر نے عالمی رائے عامہ کو لتاڑتے ہوئے اور عدل وانصاف کے شیش خانے کو روندتے ہوئے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیا ۔ یہ غیر اخلاقی اقدام بالمعنیٰ بیت المقدس پر اسرائیل کے نا جائز قبضے پر مہر تصدیق ثبت کر نے کے مترادف ہے ۔اس ظلم وجبر کے خلاف اہل فلسطین نے آواز اٹھائی تواسے بم اور بارود کے بل پر دبانے پر امریکہ کے اولادِ نا خلف اسرائیل نے غزہ میں بر سراحتجاج فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا۔ تفصیلات کے مطابق پچاس سے زائد فلسطینی اسرائیل کی گولیوں کا نشانہ بن کے جاں عزیز سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین زخمی پڑے ہوئے ہیں ۔ان میں سے کم و بیش سو کی تعدادمیں ایسے زخمی ہیں جن کی حالت ابتر بتائی جاتی ہے۔اس قتل عام کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد،اُن کی بیٹی جن کا شمار اس جنونی صدر کے صلاح کاروں میں ہوتاہے، امریکہ اور اسرائیلی حکام کے ساتھ خوشیاں منا رہے تھے جب کہ عالم اسلام میں جو بیشتر مغربی ایشیا پہ محیط ہے ،رنج و غم سکوت کا عالم طاری رہا۔ اس سے کوئی زیادہ کی توقع رکھنا بھی بے جا ہے ،زیادہ سے زیادہ مسلم ممالک کے حکمران ایک ہلکے سے بیان کی صورت میں اپنی ناراضگی کا اظہار کریں گے اور وہ بھی اُسی حد تک جہاں امریکہ بہادر کا نزلہ اُن پہ نہ گر سکے۔ڈونالڈ ٹرمپ نے 21صدی میں صیہونیت کو فلسطینیوں پہ حاوی کرنے کے اُس عمل کو آگے بڑھایا جس کا آغاز برطانوی تاج شاہی نے 20صدی کے اوائل میں کیا تھا۔
آج کم و بیش ایک صدی پہلے برطانوی وزیر سیکرٹری آف سٹیٹ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917 ء کے روز والٹر راتھ چائلڈ کو ایک مکتوب میں یہ عندیہ دیا کہ ’’ہز مجسٹی (برطانوی تاج شاہی )کی سرکار فلسطین میں یہودیوں کے نیشنل ہوم (قومی اقامت گاہ) کے قیام کو ہمدردی کی نظر سے دیکھتی ہے اور اُس کو عملانے کے لئے اپنے بہترین وسائل کو بروئے کار لائے گی اور اُسی کے ساتھ یہ صاف طور پہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے جس سے فلسطین کی غیر یہودی بستیوں کے شہری و مذہبی حقوق متاثر ہوںیا دوسرے ممالک میں جو یہودی آباد ہیں، اُن کے حقوق و سیاسی حثیت پہ کوئی اثر نہ پڑے‘‘۔ اس مکتوب کے آخر میں بالفور نے صلاح دی ہے کہ ’’میں شکر گذار رہوں گا اگر آپ اس ڈیکلریشن کو صیہونی فیڈریشن کے علم میں لائیں‘‘سیاسی فریب کاری میں ڈوبا ہوا یہ مکتوب برطانیہ میں راتھ چائلڈ خاندان کے اعلی ترین فرد کو ارسال ہوا جو برطانوی تاج شاہی کے خطاب یافتہ ’بیرن(Baron)‘ تھے ۔یہ خاندان جو عالمی یہودی ساہو کاروں میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے برطانیہ کے علاوہ پورے یورپ میں پھیلا ہوا ہے اور صیہونیت کے علمبرداروں میں مانا جاتا ہے۔برطانوی راتھ چائلڈ خاندان کے والٹر راتھ چائلڈ برطانیہ اور آئر لینڈ کی صیہونی فیڈریشن کے لیڈر تھے۔
برطانیہ کو ایک عالمی معاہدے میں فلسطین کا منڈیٹ ملا تھا ۔اس معاہدے سے پہلے فلسطین باقی عربی دنیا کی مانند ترکی کی عثمانی خلافت کا ایک حصہ تھا لیکن زمانے کی گردش و ستم ظریفی سے ترکی یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ (Sick Man of Europe)بن چکا تھا اور یورپی ممالک طنزیہ طورپہ ترکی کو اِسی نام سے یاد کرتے تھے حالانکہ اِسی یورپ نے خاص کر مشرقی یورپ جسے بلقان کہا جاتا ہے ، وہ دن بھی دیکھے تھے جب مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کے سلاتی تھیں کہ ’’سو جاؤ غازی آ رہے ہیں‘ لیکن غازیوں کی توپ و تفنگ زنگ زدہ ہو چکیں تھیں اور ترکی’’ مرد بیمار‘‘ بن چکا تھا۔ترکی کے ضعف میں اگر کوئی کمی تھی ،وہ تاج برطانیہ کے جاسوسوں نے خلافت عثمانیہ اور اعراب میں دراڑ ڈال کے پوری کی تھی ۔تاج برطانیہ کے اِن جاسوسوں میں سب سے بد ترین لارنس آف عربیہ تھا۔لارنس آف عربیہ اور اُس کے حواریوں نے عربوں میں قوم پرستی کے بیج بوئے جس سے مسلمان مسلمان نہیں رہا بلکہ عرب،ایرانی و ترک بن گیا اور یہ قوم پرستی کی وبا اب تک پورے شدو مد سے اسلامی دنیا کو گھیرے ہوئے ہے ۔آج بھی جب کہ 21ویں صدی کا دور دورہ ہے پچھلے سو سال سے یہ وبا مسلما نوں میں اِس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ سب ہی مسلم ممالک اجتماعی فکر سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ا و رصرف اپنے ممالک پہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔فلسطینی عربی دنیا کے بیچوں بیچ ہوتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے ظلم و ستم میںپسے جا رہے ہیں ۔معصوم جانوں کا زیاں ہو رہا ہے غزہ کے غیور عوام لہو لہاں ہو رہے ہیں لیکن کوئی پرساں حال نہیں!
20ویں صدی کی شروعات میں بھی وہی ہوا جو سو سال بعد 21صدی میں ہو رہا ہے۔تاج برطانیہ نے آرتھر جیمز بالفور کے مکتوب بنام والٹر راتھ چائلڈ میں یہودیوں کے فلسطین پہ حقوق کی جو بات کی تھی وہ یہ دیکھ کے کی گئی تھی کہ ا عرب کے رہبروں کی حمایت اُنہیںاپنے مکروہ عزائم عملیانے میں حاصل ہے۔ ڈاکٹر چیم ویز مان (Dr. Chaim Weizmann) جو کہ صیہونیت کے علمبرداروں میں مانے جاتے ہیں اپنی تصنیف (ٹرئل و ایرر Trial and Error) رقمطراز ہیں کہ ’’فلسطین کو اُن علاقوں سے خارج کیا گیا ہے جنہیں عرب و آزاد ماننا چاہیے تھا‘‘ بہ معنی دیگر موصوف کی رائے میں فلسطین اُن علاقوں میں شامل نہیں ہے جنہیں عرب و آزاد مانا جائے ۔ صاف ظاہر ہے کہ عربی رہبروں نے فلسطین سے ہاتھ دھو لئے تھے ۔عثمانی خلافت کے اعلی وزیر طلعت کا یہ کہنا تھا کہ ’’یہودیوں کی سب ہی جائز خواہشات فلسطین میں پوری کی پوری ہو جائینگی‘‘ جبکہ برطانیہ کے حامی مکہ کے شریف حسین کا ماننا تھا کہ فلسطین کے اعراب کو یہودیوں کو بھائیوں کی مانند استقبال کرنا چاہیے اور باہمی بہبودی کیلئے اُن سے مل جل کے رہنا چاہیے‘‘ ۔پس یہ وہ پند و نصائح تھے جو مسلمانوں کے رہبر فلسطین کے اعراب کو دے رہے تھے ۔قارئین یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مکہ معظمہ کے شریف حسین کو اپنے حلوے مانڈے کی فکر لگی ہوئی تھی کیونکہ تاج برطانیہ کے مامور جاسوس اُنہیں اطمیناں دے چکے تھے کہ جب خلافت عثمانیہ مختلف ٹکڑوں میں بٹ جائیگی تو عراق و اردن کو اُن کی آل و اولاد میں بانٹا جائیگا ۔اردن کی سلطنت ابھی بھی اُنکی آل و اولاد کی تحویل میں ہے اور یہ سلطنت فلسطینیوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کیلئے اکثر و بیشتر مغربی سامراجیوں کا ساتھ دے چکی ہے بلکہ ایسے بھی مقام آئے جب اُنہوں نے فلسطینیوں کے خوں سے اپنے ہاتھ رنگے۔فلطینیوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے میں کئی عربی لیڈروں نے امریکہ اور اُس کے مغربی حلیفوں کا ساتھ دیا ہے۔کبھی یہ ساتھ علنناََ دیا گیا اور کبھی پس پردہ اور آج بھی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ فلسطینیوں سے ہمدردی زبانی جمع خرچ تک محدود ہے اور یہی عالم اسلام کا المیہ ہے۔
فلسطین کا منڈیٹ حاصل ہونے کے بعد برطانیہ کی عالمی تاجر برادری نے یہودی ساہو کاروں کو فلسطینی اعراب کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی کھلی چھوٹ دی اور آرتھر جیمز بالفور کی یہ شرط کہ یہودی بستیاں فلسطینیوں کے حقوق و مذہبی آزادی پہ اثر انداز نہیں ہونگی فقط و فقط سیا سی قلا بازی ثابت ہوئی اور ایک صدی پہ محیط یورپ کے یہودی بستیاںبناتے رہے اور فلسطین کے ارد گرد عربی ممالک تماشا دیکھتے رہے۔ یہودی شدت پسندوں کی پشت پہ مغربی دنیا رہی جس کی رہبری جنگ جہانی دوم تک برطانیہ کے ہاتھ میں تھی اوراُس کے بعد امریکی تسلط نے پوری دنیا کو گھیر کے رکھا اور فلسطینی بے دست و پا دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ایسے بھی دور آئے جب فلسطینیوں نے جابرانہ قبضے کے خلاف شدید مقاومت کا مظاہرہ کیا لیکن کبھی بھی اعراب یا عالم اسلام اُن کی پشت پہ ایک ہی صف میں کھڑا نظر نہیں آیا ۔اعراب کے باہمی اختلاف کی کئی صورتیں دیکھنے کو ملیں لیکن اتفاق کی صورت حال دیکھنے کو نہیں ملی یہاں تک کہ عالمی رائے عامہ کو پس پشت ڈال کے ڈونالڈ ٹرمپ نے قابض اسرائیل کو یروشلم کو کاملاََ اپنے بس میں کرنے نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ اپنا سفارت خانہ بھی یروشلم میں کھول دیا حالانکہ یروشلم کی سیاسی حثیت متنازعہ ہے اور اِس متنازعہ حثیت کو دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک مانتے ہیں حتّی کہ امریکہ کے مغربی حلیف بھی اِس معاملے میں امریکہ کا ساتھ دینے میں گریز کر رہے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد عالم عرب کے صحرا میں تیل کی ذخیرے دستیاب ہوئے اور علامہ اقبال کی یہ دعا قبول ہوئی جو اُنہوں نے اپنے خاص شاعرانہ انداز میں کی تھی:
تری قدرت کی کوئی حد نہ حساب
تو جو چاہے تو سیلی زدہ ہو موج سراب!
موج سراب تو تیل کی صورت میں سیلی زدہ ہو گئی لیکن کالے سونے کو اعراب اپنی باہمی بہبودی کیلئے مصرف میں نہیں لا سکے۔تیل بیشتر خلیجی ممالک و عراق میں دریافت ہوا اور اُس کے علاوہ بحیرہ روم کے ساحل پہ واقع لیبیا میں بیشتر اور الجزائر میں کمتر تیل کے ذخائر ملے ۔اِن ممالک کی اجتماعی جمعیت اعراب کی کل جمعیت کی مناسبت سے کم و قلیل تھی جبکہ اعراب کی بیشتر جمعیت مصر،شام،اُردن میں تھی اور یہی ممالک فلسطین کے ارد گرد تھے ۔یہ آخر الذکر ممالک تعلیم و تربیت میں خلیج سے پیشرفت تھے اور اُن کی افواج بھی کم و بیش اراستہ تھی لیکن سرمایے کی کمی سے اُن کی افواج کو وہ اسلحہ میسر نہیں ہو سکا جو کہ اسرائیل کی غاصب سرکار کیلئے امریکہ اور مغربی دنیا نے میسر رکھا تھا۔تیل سے مالا مال عربی ممالک اپنی سرمایے سے اِن فرنٹ لائن عربی ممالک کی خاطر خواہ مدد کرنے سے باز رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تیل سے حاصل شدہ سرمایے کو اُنہوں نے مغربی دنیا کے بنکوں میں جمع کر کے اُنکے اقتصاد کو بہت بڑا سہارا دیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کئی عرب ممالک کے سربراہ پس پردہ امریکہ کے ہمدم ہیں اور اُنکی رفاقت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ حوصلہ بخشا کہ عالمی رائے عامہ کے برعکس وہ یروشلم پہ اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے میں یروشلم کو یہودی ریاست کا دارلخلافہ مانتے ہوئے وہاں امریکہ سفارت خانہ کھول دیا گیا۔ یہ اقدام عالمی برادری کی اکثریت مطلق کے سیاسی و سفارتی نظریے کے خلاف ہے۔یہ عیاں ہے کہ یروشلم جسے مسلمین احترام و تقدس سے بیت المقدس یا قدس شریف کے ناموں سے پکارتے ہیں کا تاریخی پس منظر اِس قدر وسیع ہے جو شاید ہی کسی اور مقام، کسی اور شہر سے قابل مقایسہ ہو۔یہاں پس منظر میں نہ صرف مختلف ادوار کی سیاست ہے بلکہ مذہبی،لسانی و ثقافتی نقوش بھی ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اطوار و طور و طریقے سے انتہا پسند سفید فام ہی سہی البتہ یہ بعید ہے کہ اُن کے فیصلے کے پس پردہ سیاسی فوائد کی ایک فہرست نہ رہی ہو جن میں انتہا پسند عیسائی مذہبی فرقوں کی حمایت کو اپنے سیاسی منصوبوں کے ساتھ باندھے رکھنے کو مد نظر نہ رکھا گیا ہو۔اِس سے بھی بڑی وجہ امریکی یہودیوں کی حمایت کا حصول ہے جو نہ صرف امریکی اقتصادیات پہ حاوی ہیں بلکہ مطبوعاتی حلقوں میں بھی اُنکا اثر ایک مانی ہوئی بات ہے۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ دنیا کو ہمیشہ ہی یہودی سوال کا سامنا رہے گا بہ معنی دیگر یہودی ہمیشہ ہی اقوام عالم کیلئے درد سر بنے رہیں گے۔تاریخ کے ہر دور میں یہ حقیقت عیاں رہی ہے قوم یہود نہ ہی خود آرام سے رہتی ہے نہ ہی دوسروں کو آرام سے جینے دیتی ہے۔آج بھی کچھ ایسا ہی سماں ہے۔عبرانی ،یہودی بننے سے پہلے اور یہودی بننے کے بعد کبھی بابل سے رسوا ہو کے نکالے گئے، کبھی مصر سے خروج میں حضرت موسی ؑ کو اُنکا نجات دہندہ بننا پڑا ،کبھی وہ یروشلم سے نکالے گئے اور کبھی بازنطینی سلطنت میں مسلمین اُنکو عیسائیوں کے عتاب سے بچا لائے۔عصر حاضر میں یورپی اقوام یہودیوں کے اقتصادی استبداد کا شکار ہوئے یہاں تک کہ یورپی رہبراں کو اُنکے لئے فلسطین میں نیشنل ہوم کی تلاش کرنی پڑی اور انجام کار یہودی اثر رسوخ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ منوایا البتہ چونکہ اِس قوم کی لالچ کی کوئی حد نہیں اُسے دیر یا سویر رسوائی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور تاریخ ہمیشہ ہی دہرائی جاتی ہے۔
Feedback on:[email protected]