یو این آئی
غزہ//دنیا بھر کے اعلی مالیاتی حکام نے اس ہفتے غزہ کی فلسطینی پٹی کی تعمیر نو میں مدد دینے کی اپنی آمادگی پر زور دیا ہے، جب کہ ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ نے 70 ارب ڈالر کی نئی تخمینہ لاگت کو حتمی شکل دینے پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او)کی ڈائریکٹر جنرل انگوزی اوکونجو-ایویلا نے بتایا کہ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کو مشورہ دینے والی وزارتی سطح کی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے ارکان نے جمعرات کو ہونے والی ایک میٹنگ میں اس عمل میں درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم سب بہت شکر گزار ہیں کہ جنگ بندی ہوگئی ہے، قتل و غارت رک گئی ہے، یرغمالیوں کو گھر واپس لایا گیا ہے، اور فلسطینیوں کو خوراک مل رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اگلے مرحلے کی جانب ایک قدم ہوگا، اور وہ مرحلہ پرامن طریقے سے مکمل ہوگا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے 3 مراحل پر مشتمل 5 سالہ منصوبہ پیش کیا تھا، جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال علاقے کو دوبارہ آباد کرنا اور اسے ریاستِ فلسطین کا فعال، مربوط اور ترقی یافتہ حصہ بنانا ہے۔فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفی نے جمعرات کو اقوامِ متحدہ اور سفارتی حکام سے ملاقات کی اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، حالانکہ اس بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے کہ جنگ سے برباد علاقے کے مستقبل میں ان کی حکومت کا کیا کردار ہوگا۔محمد مصطفی نے کہا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کے لیے پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا ہے، جو تین مراحل پر مشتمل ہوگا اور رہائش، تعلیم، حکمرانی اور دیگر 18 شعبوں کے لیے 65 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ان کے مطابق یہ منصوبہ اس بنیاد پر بنایا گیا ہے جو مارچ 2025 میں قاہرہ میں عرب ممالک کے ایک اجلاس میں طے پایا تھا اور مصر اور اردن کے ساتھ شروع کیا گیا پولیس ٹریننگ پروگرام پہلے ہی جاری ہیں۔محمد مصطفی کا کہنا تھا کہ غزہ کو ریاستِ فلسطین کا ایک کھلے، مربوط اور ترقی پذیر حصے کے طور پر تعمیرِ نو کیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یورپی یونین کے ساتھ محفوظ عبوری آپریشنز، کسٹمز کے نظام اور مربوط پولیسنگ یونٹس پر تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔یورپی یونین، فلسطینی اتھارٹی کے بڑے امداد دہندگان میں سے ایک ہے، سب سے بڑھ کر، یہ جنگ کے بعد کی تعمیرِ نو کا منصوبہ ایک واحد فلسطینی حکومت کے لیے راہ ہموار کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔فلسطینی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ یہ عمل غزہ اور مغربی کنارہ کے درمیان سیاسی اور علاقائی یکجہتی کو مضبوط کرے گا اور ریاستِ فلسطین کے لیے ایک قابلِ اعتبار حکمرانی فریم ورک کی بحالی میں حصہ ڈالے گا۔