کرۂ ارض کے جن گوشوں میں مظلوم قومیں اپنے خوابوں کی تعبیرپانے ، فضائوں سے نوراُترنے اوراندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظارمیں جابر،غاصب اورظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپرہیں، انہیں خاک اورخون کے کتنے ہی دریادرپیش ہوں لیکن اس کے باوجودان کی سعی پیہم اور جہد مسلسل میں کوئی ناامیدی، جھول ،تشکیک، تذبذب ، اشکال شبہ، فکری اُلجھائو ،جذباتی ہیجان اور ڈھلمل یقین اورخود سپردگی ہرگزنہیں پایاجارہاہے۔وہ حق وصداقت کی علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بارباراورلگاتاراپنی پکار جاری رکھے ہوئے ہیں۔جمعہ المبارک 30مارچ کو غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں نے انصاف کی صدابلندکرتے ہوئے چھ ہفتوں پر مشتمل رفیع الشان جلوسوںکا آغازکردیاکہ مظاہرین کوخون میں نہلایاگیا۔ہزاروںفلسطینی جسکی قیادت اسماعیل ہانیہ کررہے تھے اسرائیلی زیرتسلط علاقوں کی طرف مارچ کررہے تھے کہ غزہ کے علاقے خان یونس میں صیہونیوںنے ان پرفائرنگ کعدی اوراندھادھندگولیاں چلائی ۔مختلف میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل کی اس تازہ بربریت کے نتیجے میں کم ازکم 17فلسطینی شہید جب کہ1500سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے جن میں760بری طرح زخمی ہیں۔فلسطینیوں کے قتل عام کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیاکہ جب فلسطین بھر میں 30 مارچ کو’’ یوم الارض‘‘ کے حوالے سے ریلیاں نکالی جا رہی ہیںاور وہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت عرب سرزمین سے جبری بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کی مانگ کررہے تھے۔واضح رہے کہ فلسطینیوں کواپنی سرزمین سے بے دخل کرکے ان ہی کی آبائی سرزمین پر مسلح یہودی گروپوں نے قبضہ کرکے اسرائیل کے نام سے اپنی ناجائز ریاست قائم کرلی تھی۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کی طرف سے جبری حد بندی کے قریب پانچ مقامات پر احتجاجی کیمپ قائم کیے ہیںجوحدبندی غزہ کوباقی سرزمین فلسطین سے کاٹ دیتی ہے۔فلسطینیوںنے اس مارچ کو’’واپسی کے لیے عظیم مارچ‘‘کا نام دیا ہے ۔اسرائیل کی تازہ جنگی درندگی پر مختلف عرب اور دوسرے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے وہی گھسے پٹے بیانات آ رہے ہیں جن کوسنتے سنتے دنیا کے کان پک گئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی شاید کوئی مذمتی قرارداد منظور ہو جائے لیکن یہ توطے ہے کہ ٹرمپ نے فلسطینیوں کی طرف سے جس رعونت سے عبارت پالیسی اختیار کی گئی ہے، اس نے فلسطینیوںکی تحریک انتفاضہ میں نئی جان ڈالی ہے۔
اسرائیل کی ناجائز حکومت1948 سے لے کر آج تک مختلف حربوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے نکالنے کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریبا12.4ملین ’’ایک کروڑچوبیس لاکھ‘‘فلسطینی اپنی سرزمین پر زندگی گزارنے کے حق سے بھی محروم اور انہیںمغربی کنارے،غرب اردن اوررقبے کے اعتبارسے تنگ غزہ پٹی میں ٹھونساگیاجبکہ ہمسایہ عرب ممالک مصر،اردن ،شام اورلبنان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ر دیا۔ غاصب اسرائیل نے 15 مئی 1948 کو شمالی فلسطین کی 774 بستیوں اور دیہات پرقبضہ کیا۔ 531 شہروں اور قصبوں کا نام ونشان مٹا دیا گیا۔ اس دوران 70 مرتبہ فلسطینیوں کا اجتماعی قتل کیا گیا، جن میں کم سے کم 15 ہزار فلسطینی لقمہ اجل بنے۔امریکہ اوراسرائیلی حکومت پوری کوشش کررہے ہیں کہ پناہ گزین فلسطینی جن ہمسایہ ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں ان کو وہیں بسایا جائے اور ان کی وطن واپسی کا سدباب کردیا جائے۔ کشمیرعظمیٰ کے ہمارے قارئین کواچھی طرح یادہوگاکہ ایک ہفتہ قبل مصرکی ظالمانہ حکومت نے مصرکے ایک بڑے صحرائی رقبے’’ جزیرہ نمائے سینا‘‘ کوسعودی حکومت کے ہاتھوں فروخت کرنے کاعندیہ دیااورسعودی حکومت نے بعوض زرکثیر مصرکا صحرائی علاقہ خریدلیامقصدیہ بتلایاگیاہے کہ یہاں فلسطینی پناہ گزینوں کوبسایاجاسکے ۔تاہم فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے فلسطینی جلاوطنوں کو ارض فلسطین کے سواکسی اور جگہ بسانے کی تجویز کویہ کہتے ہوئے یکسرمستردکردیاکہ مصرکے’’ جزیرہ نمائے سینا‘‘ میں فلسطینیوں کو بسانے سے فلسطین کی سرزمین پراہل فلسطین کودائمی طورپرنکالنے کے امریکی اوراسرائیلی منصوبے کوتقویت ملتی ہے۔یہ المیہ نہیں تواورکیاکہ جوعرب ممالک مصرکے’’ جزیرہ نمائے سینا‘‘ میںاہل فلسطین کوبسانے کے لئے ایک دوسرے سے زمینیوں کی خریدوفروخت کررہے ہیں انہوں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیلیوں کی آبادکاری پراسرائیل اورامریکہ پر دبا ڈالنے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا ہے جبکہ وہ دبائوڈال سکتے تھے ۔ کئی عامی رپورٹس میںجو اعدادوشماردئے گئے ہیں ان کے مطابق 1948 میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندراوراسے باہرایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں کھانے والی زندگی پر مجبور ہیں۔ان اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جواس وقت فلسطین کی سرزمین پرموجودہیںکی کل آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے اوران میںفلسطین کے اندر پناہ گزین فلسطینی شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق اندرون فلسطین رجسٹرڈاپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوںکی تعداد 5.59ملین ہے۔اندرون فلسطین یعنی اسرائیل کے زیرقبضہ ارض فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں میں سے 34.8 فی صد کی عمریں 15 سال سے کم ہیں جب کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 4.4 بیان کی گئی ہے ۔ جبکہ28.7 فیصدفلسطینی پناہ گزین اردن میں 58 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 9 کیمپ ہیں۔ لبنان میں 12، مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 اور غزہ کی پٹی میں 8 پناہ گزین کیمپ ہیں۔ 1949 سے جنگ ستمبر 1967 کے عرصے میں فلسطین سے بے دخل کئے جانے والے شہریوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے 1967 کی جنگ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو بھی اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کیا۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت بیت المقدس کے اردگردقابض ہے۔ اس کے علاوہ غرب اردن میں150 بڑی اور 119 چھوٹی کالونیوں سمیت کل 413 مقامات پر یہودی آباد کارارض فلسطین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔رپورٹس کے مطابق ارض فلسطین کے کل 27 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 85 فی صد پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے جب کہ فلسطینیوں کے پاس صرف 15 فی صد علاقہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر 1500 کلو میٹر کا علاقہ بفرزون قرار دے رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس موجود کل رقبے کا 24فی صد غزہ کا علاقہ شامل ہے جو کل 365 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہے۔ 90 فی صد وادی اردن اور 29 فی صد مقبوضہ مغربی کنارے کا علاقہ فلسطینیوں کے پاس ہے۔ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ فلسطینی قدرتی وسائل پر بھی اسرائیل کی ناجائز ریاست قابض ہے۔ فلسطین کے پانی کے 85 فی صد وسائل اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ فلسطینی شہری اسرائیل کی واٹر سپلائی کمپنی’’ میکروٹ‘‘ سے پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ 2014 کے دوران فلسطینیوں نے اس کمپنی سے 63.5 ملین گیلن پانی خرید کیا۔
تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اپنی جارحیت اوربربریت جاری رکھتے ہوئے ارض فلسطین میں 29 ستمبر 2000 سے 31 دسمبر 2015 تک 10 ہزار 243 فلسطینی شہید کیے۔ جبکہ2014 فلسطینیوں کے قتل عام کا بدترین سال قرار دیا جاتا ہے۔ اس دوران 2240 فلسطینی شہید کے گئے۔ ان میں 2181 فلسطینی غزہ کی پٹی پر اکاون دن تک مسلط کی گئی جنگ کے دوران شہید ہوئے۔اس سے قبل 2009 میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں 1219 فلسطینی شہید کیے گئے جب کہ 2012 میں غزہ میں 306 فلسطینی شہید ہوئے۔ 2015 میں اسرائیل کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کے دوران 181 فلسطینی شہید کئے گئے۔ ان میں 26 غزہ کی پٹی اور 155 مقبوضہ مغربی کنارے میں شہید ہوئے۔فلسطینی محکمہ امور اسیران کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق 1967 سے اپریل 2016 تک 20 لاکھ فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ 95 ہزار فلسطینی 2000 میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد گرفتار کیے گئے۔جنہیں قیدوبندکی صعوبتوں سے گذاراگیااورپھرادھ موکرکے مرحلہ واررہابھی کیاجاتارہا۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حراستی مراکز اور جیلوں میں اب بھی 7 ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں۔ ان میں 400 بچے،68 خواتین، 750 انتظامی قیدی، جب کہ 500 عمر قید کے سزا یافتہ اسیر شامل ہیں۔بتایاگیاکہ 2015 کے دوران غاصب اسرائیلی فوج نے کریک ڈان کے دوران 6 ہزار 830 فلسطینی جیلوں میں ڈالے۔ ان میں 2179 بچے اور 225 خواتین شامل ہیں۔ رواں سال یعنی جنوری 2016 سے اب تک 2000 فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔
اسرائیل ارض فلسطین کوہتھانے اوربچے کچے فلسطینیوں کوارض فلسطین سے مکمل طورپربے دخل کرنے کے لئے مسلسل شش جہت اپنی بربریت اورجارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اوروہ فلسطینی جو اب بھی ارض فلسطین میں موجودہے انہیںجانی اورمالی غرض ہرسطح نقصان پہنچارہاہے یہ گذشتہ ہفتے کی بات ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے 8 ہزاردونم اراضی پرپھیلے فلسطینیوں کے باغات اور فصلیں نذرآتش کردیں۔فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں غاصب اسرائیلی فوج نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی تلاش کی آڑ میںآتش گیرمادہ سے بھرے ہوئے گولوں کی بارش کردی جس کے نتیجے میں دورا قصبے سے متصل فلسطینی باغات اور فصلوں کو آگ لگ گئی۔ آتش گیر مادہ بھڑکنے کے باعث لگی آگ نے 8000 دونم رقبے پرپھیلے باغات اور فصلیں جلا کر خاکسترکردیں۔غاصب اسرائیلی فوجیوں نے رات کی تاریکی میں یہودی کالونی کے قریب فلسطینی شہریوں کی فصلات اور پھل دار پودوں کے باغات پرآتش گیرموادسے بھرے ہوئے گولے پھینکے جن سے ہولناک آگ بھڑک اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 8 ہزار دونم اراضی پرپھیلے باغات،جنگلات اور فصلیں جل کر خاکستر ہوگئی ہیں۔ خیال رہے کہ ایک دونم ایک ہزار مربع میٹر کے رقبے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ وہ اس علاقے میں چھپے فلسطینی مزاحمت کاروں کو تلاش کرنے کے لیے روشنی کے گولے پھینک رہے تھے جن کے باعث فلسطینیوں کی فصلوں اور باغات کو آگ لگ گئی تھی۔ قبل ازیں اسی طرح کی ایک دوسری کارروائی میں سلفیت شہر میں بھی فلسطینی شہریوں کی فصلوں اور باغات کو جلا کر خاکستر کردیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق الخلیل میں آتش زدگی کے باعث اخروٹ، بادام، زیتون، انگور اور دیگرہزاروں کی تعداد میں پھل دار پودے جل کرخاکستر ہوگئے۔ فلسطینی شہری دفاع نے آگ بجھانے کے لیے ٹیمیں روانہ کیں لیکن غاصب اسرائیلی فوجیوں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا۔ اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ قابض فورسز نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی فصلات کو نذرآتش کیا ہے۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے غالب حصے پر اب اسرائیل کی حکومت قائم ہے۔ 1948 سے پہلے یہ تمام علاقہ ارض فلسطین کہلاتا تھا۔ جو خلافت عثمانیہ کے سقوط تک بدستور قائم رہا ۔لیکن جب بعض عربوں اورشاطرانگریزکی سازشوں کے نتیجے میںخلافت عثمانیہ کے سقوط کاالمیہ پیش آیا تو برطانیہ اور فرانس نے نہ صرف ارض فلسطین کے حصے بخرے کردئے بلکہ اس پر قابض ہونے کے بعد1948 میںاسرائیل کے نام پرامت مسلمہ کے سینے میں خنجرپیوستہ کردیا کر لیا۔برطانیہ نے سارے یورپ سے مل کر1948 میں ارض فلسطین پر اسرائیلی کی ناجائزریاست قائم کی ۔ اسرائیل کی ناجائزریاست کے جبری قیام کے بعدبھی ارض فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھالیکن 1967 میں اسرائیل نے اس پربھی قبضہ کر لیااوراسے اسرائیلی یروشلم کانام دیاہے۔ خیال رہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہی ہے۔
1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ناروااورظالمانہ قرارداد کے ذریعہ ارض فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائزحکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر دفاعی حملہ کیا، تاہم کئی خامیوں کے باعث وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ عربوں کے اس ناکام جنگ سے اسرائیل کوحوصلہ ملا اوروہ باقی بچی ارض فلسطین ہتھانے کے لئے ناجائز یہودی ریاست کے رقبے میں مزید اضافہ کرتاچلا گیا۔29 اکتوبر 1958 کو اسرائیل نے ’’صحرانمائے سینا‘‘ پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا بھرپورساتھ دیا۔ 6 نومبر1958کو جنگ بندی عمل میں آئی۔ 1949 میںعربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967 تک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالئے گئے ۔لیکن اس کے فورا بعد اردن نے ارض فلسطین کے’’ غرب اردن‘‘ کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر ی فوج نے’’ غزہ کی پٹی‘‘ اپنی تحویل میں لے لی۔
امریکہ میں موجود یہودیوں کی تعداد تقریباً6 ملین ہے اور امریکی صدارتی انتخابات میں فتح کا مارجن 3فیصد یا 4فیصد ہوتا ہے ۔ گویا یہ فیصلہ کن کردار یہ یہودی ووٹ ادا کرتا ہے (Aipac)یعنی امریکن اسرائیل پبلک افیریز کمیٹی امریکہ میںموثر لابنگ کرلیتی ہے۔ جس طرف اس کاجھکائوہووہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتاہے۔۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی پالیسی میں اسرائیل کی جانب روزاول سے ہی جھکائورہاہے اس جھکائوکااندازہ آپ ہیری ایس ٹرومین کے اس بیان سے لگا سکتے ہیں جو انہوں نے 1946میں ایک عرب وفد سے بات کرتے ہوئے دیا ۔ انہوں نے کہا’’جنٹل مین، مجھے افسوس ہے لیکن مجھے ان لاکھوں لوگوں کو جواب دینا ہے جو صیہونیت کی کامیابی کی توقع کر رہے ہیں ۔ میرے ووٹرز میں ہزاروں یہودی تو ہیں ، ہزاروں عرب نہیں ہیں۔‘‘1961 میں جب امریکی صدر کینڈی کی ملاقات اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان سے ( Astoria Waldorf )ہوٹل میں ہوئی اس ملاقات میں انہوں نے بن گوریان سے کہا’’میں جانتا ہوں میری کامیابی امریکی یہودیوں کے ووٹ کی مرہون منت ہے۔ میں انتخابات کے حوصلے سے ان کا احسان مند ہوں ، مجھے بتائے یہودی لوگوں کے لئے کیا کرنا ہے۔‘‘Aipac کی یہ لابنگ کبھی کمزور نہ ہو سکی چنانچہ جب جانسن صدر بنے تو اسرائیلی سفارت کار نے دعویٰ کیاکہ’’وائٹ ہائوس میں یہودی ریاست کے جتنے دوست رہے ہیں ، ان میں سے جانسن ہمارا بہترین دوست ہے‘‘اسی طرح جمی کارٹرنے ایک موقع پر کہاکہ’’اسرائیل کی بقاء ہمارا سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی فریضہ ہے‘‘ اسرائیل سے متعلق یہی نظریہ بش اوریہی نقطہ نظراوباماکارہاہے اندازہ کیا جانا چاہیے کہ یہودیوں کا امریکی پالیسی اثرورسوخ کا کیا عالم ہے۔امریکہ اوریورپ کی اسرائیل کی سرپرستی اورفلسطین کا’’ یوم نکبہ‘‘ امت مسلمہ کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔