یواین آئی
بروسیلز/ اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے یورپی حلقوں میں بڑھتی تشویش کے پس منظر میں 209 سے زائد یورپی سابق سفارت کاروں، جن میں 110 سفیر اور 25 اعلیٰ سطح کے ڈائریکٹر شامل ہیں نے یورپی یونین کے اداروں کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔اس خط میں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے اور جنگ فوری روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ ہو اور عالمی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائے۔برطانوی اخبار “گارڈین” کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں کئی اہم شخصیات شامل ہیں جنہوں نے حساس عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، ان میں یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس کے سابق سیکرٹری جنرل آلان لو رْوے اور یورپی کمیشن کے سابق سیکرٹری جنرل کارلو تروجان بھی شامل ہیں۔ مکتوب میں کہا گیا کہ یورپی یونین کی خاموشی یا سست روی اس کی بین الاقوامی اور اندرونی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔مکتوب میں نو ممکنہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے لائسنس معطل کرنا، غیر قانونی طریقے سے آنے والی مصنوعات و خدمات پر تجارتی پابندیاں لگانا اور یورپی ڈیٹا سینٹرز کو اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے میں سرگرمیوں سے متعلق معلومات وصول کرنے یا پراسیس کرنے سے روکنا شامل ہے۔ مزید کہا گیا کہ اگر یورپی یونین اجتماعی موقف اختیار نہ کر سکے تو رکن ممالک انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپوں کی صورت میں کارروائی کریں۔یورپی یونین کے سابق مندوب سفن کوئن فان بورگسڈورف، جو اس اقدام کے بانیوں میں شامل ہیں کا کہنا تھا کہ “یہ مکتوب یورپی اداروں کے اندر بڑھتے غم و غصے کی عکاسی کرتا ہے”۔ انہوں نے واضح کیا کہ زیادہ سے زیادہ سفارت کار اور سابق اہلکار اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ “وقت آ گیا ہے کہ عملی قدم اٹھایا جائے”، کیونکہ غزہ میں انسانی بحران طویل ہوتا جا رہا ہے۔خط پر دستخط کرنے والوں نے متنبہ کیا کہ یورپی حکومتیں اپنے عوام کے سامنے اعتماد کھو رہی ہیں۔ جرمنی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 80 فیصد عوام اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ دو تہائی جرمن چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت زیادہ سخت مؤقف اختیار کرے۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل کو ہسپتالوں اور شہری مراکز پر بمباری کے باعث وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے، جس میں صحافیوں، ڈاکٹروں اور مریضوں سمیت سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ان المناک مناظر نے یورپ کی حکومتوں پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے کہ وہ تل ابیب کے حوالے سے زیادہ واضح اور سخت مؤقف اپنائیں، خاص طور پر جب کہ یورپی سفارت کاروں کے مطابق یونین کے سرکاری بیانات اور عوامی رائے کے درمیان “خلا بڑھتا جا رہا ہے”۔