عظمیٰ نیوزڈیسک
حیدرآباد// خوراک تک رسائی کا تعین کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اقوام متحدہ کے درجہ بندی کے نظام نے سرکاری طور پر غزہ میں بھکمری کا اعلان کر دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بھکمری کی سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ بھکمری ایک تکنیکی اصطلاح ہے جس سے مراد وسیع پیمانے پر غذائی قلت اور بھوک سے ہونے والی اموات یا خوراک تک رسائی کی کمی کی وجہ سے غذائی قلت اور بیماری کے امتزاج کا سامنا ہے۔ جب کسی علاقے میں بھکمری/قحط کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خوراک، غذائی قلت اور صحت کے بحران ایک ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔اگر کسی جگہ پر کم از کم 20 فیصد خاندانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو، پانچ سال سے کم عمر کے 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں، روزانہ کم از کم 2000 افراد غذائی قلت یا غذائی بحران اور بیماری کے مشترکہ اثرات سے مر رہے ہوں تو اس جگہ کو قحط زدہ قرار دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ جب بھکمری آتی ہے تو بچوں کو خوراک کی شدید قلت، جسم میں شدید غذائی قلت اور موت کے سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تک صرف چند بار سرکاری طور پر قحط کا اعلان کیا گیا ہے۔ صومالیہ میں سنہ 2011 میں، جنوبی سوڈان میں سنہ 2017 اور سنہ 2020 میں اور سنہ 2024 میں سوڈان کے مغربی دارفر کے کچھ حصوں میں قحط کا اعلان کیا گیا تھا۔غزہ میں قحط کی بڑی وجوہات میں اسرائیل کی سخت ناکہ بندی، گھریلو خوراک کی پیداوار کے نظام کی تباہی اور آبادی کا بے گھر ہونا شامل ہے۔ ان تین چیزوں کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں خوراک کی شدید قلت ہے۔ ایسی صورت حال میں زمین سے خوراک کی محدود سپلائی اور ایئر ڈراپ کے ذریعے خوراک پہنچانے کا موجودہ طریقہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔سات اکتوبر سنہ 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ یرغمال بنائے گئے۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے بجلی، خوراک، پانی اور ایندھن کی سپلائی منقطع کرنے کا حکم دے دیا۔ حالانکہ غزہ پہلے سے اسرائیل کے محاصرے میں تھا لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد اس نے امداد کی سپلائی مکمل طریقے سے روک دی۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ جنگ سے پہلے ہی زمین پر سب سے الگ تھلگ اور گنجان آباد جگہوں میں سے ایک تھا، جہاں 140 مربع میل کے رقبے میں تقریباً 20 لاکھ لوگ رہتے تھے۔اسرائیل نے برسوں سے جاری زمینی، فضائی اور سمندری ناکہ بندی کے ذریعے اس علاقے پر سخت کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے، جس میں سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں شامل ہیں۔ اس کے آدھے سے زیادہ باشندے خوراک کی کمی کا شکار تھے اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔اس دوران اسرائیل نے تقریباً 90 دن کی تین الگ الگ تقریباً مکمل ناکہ بندی لگائی ہے، دو بار شمالی غزہ پر اور ایک بار پوری پٹی پر۔ جب اقوام متحدہ اور دیگر ممالک نے آنے والی بھکمری کے بارے میں خبردار کیا، اسرائیل نے عالمی دباؤ کو کم کرنے کے لیے امداد کی سپلائی میں جزوی طور پر مختصر وقت کے لیے ڈھیل دیا، لیکن بین الاقوامی توجہ کم ہونے کے بعد انہیں دوبارہ سخت کر دیا۔مارچ سنہ 2025 میں اسرائیل نے غزہ کے لیے امداد کی مکمل طور پر ترسیل روک دی، یہ کہتے ہوئے کہ حماس امداد اپنے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہیں حماس نے اس الزام کی تردید کی۔ یہ ناکہ بندی گیارہ ہفتے تک جاری رہی۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے ذریعے مئی سنہ 2025 تک امداد تقسیم کرنے کی اجازت دی، لیکن جی ایچ ایف کی طرف سے اب تک فراہم کی جانے والی امداد بہت کم رہی ہے اور اب مزید کم ہو گئی ہے۔