ہلاکتوں کی تعداد549ہوگئی،4ہزار سے زائد زخمی
یو این آئی
غزہ //غزہ میں امریکی اور اسرائیلی امدادی مراکز کے قریب امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں اب تک کم از کم 549 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ کل اسرائیلی فائرنگ سے ہلاکتوںکی تعداد 56 ہو گئی ہے۔غزہ کی حکومت کے میڈیا دفتر نے بتایا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف ) کے چار ہفتے قبل کام شروع کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 549 فلسطینی امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔غزہ کی حکومتی اتھارٹی کے جاری کردہ بیان کے مطابق، امدادی مراکز پر امداد کے حصول کے منتظر فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 4066 افراد زخمی اور 39 افراد لاپتا ہو چکے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ ان نام نہاد ’ امدادی مراکز’ پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مکمل طور پر جنگی جرم ہے، جس کی براہ راست اور بنیادی ذمہ داری اسرائیلی قابض قوت پر عائد ہوتی ہے۔’بیان میں کہا گیا کہ’ ہم اس جاری جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں، جہاں بھوکے شہریوں کو جان بوجھ کر امداد کے نام پر بلایا جاتا ہے اور پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے انہیں روزانہ کی بنیاد پر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔’مزید کہا گیاکہ ’ اسرائیلی ریاست خوراک کو اجتماعی قتل کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، اور جسے وہ ’امداد‘ قرار دے رہی ہے، اسے تباہی اور غلبے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔’بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنیو الی عالمی تنظیم ’ سیو دی چلڈرن ’ کا کہنا ہے کہ امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن ( جی ایچ ایگ) کے چار ہفتے قبل کام شروع کرنے کے بعد سے غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مراکز پر ہونے والے حملوں میں نصف سے زیادہ واقعات میں بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ادارے نے بتایا کہ 19 جان لیوا حملوں میں سے 10 حملوں میں بچے متاثرین میں شامل تھے۔سیو دی چلڈرن کے بیان میں کہا گیا کہ ’ غزہ میں کچھ خاندان اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ بچوں کو خوراک حاصل کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں، جہاں وہ اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے کے خطرے میں آ جاتے ہیں۔’سیو دی چلڈرن کے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ کے ریجنل ڈائریکٹر احمد الہنداوی نے کہا کہ ’ کوئی بھی ان مراکز سے امداد نہیں لینا چاہتا، یہ گویا موت کا پروانہ ہے، لوگ خوفزدہ ہیں کہ وہ مارے جائیں گے، آج ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ اگرچہ ان کے خاندان کے پاس صرف ایک وقت کا کھانا رہ گیا ہے، پھر بھی وہ جی ایچ ایف کے مرکز نہیں جائیں گے، کیونکہ ان کی نظر میں ان کی جان آٹے کے تھیلے سے زیادہ قیمتی ہے۔’