ہسپتال زخمیوں کیلئے ٹراما سینٹروں میں تبدیل :عالمی ادارہ صحت
یو این آئی
غزہ// ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بحران مایوسی کی حیران کن حد تک پہنچ گیا ہے ۔۔واضح رہے کہ گزشتہ روز غزہ میں غذائی قلت سے مزید 4 بچوں سمیت 15 فلسطینی انتقال کرگئے جس کے بعد بھوک اور غذائی قلت سے انتقال کرجانے والوں کی تعداد اب 101 ہوگئی ہے ۔اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی اونروا نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے غزہ کے لیے خوراک کی امداد میں اضافے پر زور دیا ہے کیونکہ انکلیو میں بھوک کا بحران “مایوسی کی نئی اور حیران کن سطح تک پہنچ گیا ہے ۔ایکس پر ایک پوسٹ میں، ڈبلیو ایف پی نے لکھا کہ غزہ میں تقریباً ہر تین میں سے ایک شخص “دنوں تک کچھ نہیں کھا رہا۔تنظیم نے مزید کہا، “90,000 خواتین اور بچوں کو غذائی قلت کے فوری علاج کی ضرورت ہے اب کھونے کا وقت نہیں ہے بھوک کو مٹانے کے لیے خوراک کی امداد کو راستے پر لانا ہو گا۔غزہ میں اسرائیلی محاصرے کے باعث اجتماعی قحط پر 100 سے زائد این جی اوز نے انتباہ جاری کرتے ہوئے عالمی برداری سے مدد کی اپیل کی ہے ۔ انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ فوری اور مستقل جنگ بندی کی جائے اور امداد پر پابندیاں ہٹائی جائیں۔مرسی کور، ایم ایس ایف، نارویجن رفیوجی کونسل سمیت 109 تنظیموں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ امدادی کارکن خود قطاروں میں کھڑے ہو کر خوراک لینے پر مجبور ہو گئے ، اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی نے غزہ میں قحط، افراتفری اور موت کو جنم دیا ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ غزہ کے اسپتال ٹراما سینٹر بن گئے ہیں جو امداد کے متلاشی افراد پر حملوں کے نتیجے میں زخمیوں سے بھر رہے ہیں۔ڈبلیوایچ او نے اپنے بیان میں کہا کہ کھانے کی تلاش میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں ہمارے اپنے عملے کو بھی کھانے اور پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔بیان کے مطابق غزہ میں ہر شخص خوراک کی تلاش میں ہے اور زندگی مفلوج ہو چکی ہے فوری خوراک کی فراہمی ہی بحران کوروک سکتی ہے ۔غزہ میں 20 فیصد سے زائد حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ غزہ میں شدید غذائی قلت کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ غزہ میں اجتماعی بھوک ایک انسانی ساختہ سانحہ ہے غزہ میں 80 دن سے زائد مسلسل ناکہ بندی نے قحط پیدا کر دیا ہے ۔