مشرق ِ وسطیٰ
معصوم مرادآبادی
نام نہاد’ ’جنگ بندی‘ ‘کے بعد غزہ کی سمندری سرحد پر انسانوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ مسلسل بمباری اور تاراجی کے بعد جب جمعہ کی دوپہر ’جنگ بندی ‘نافذ ہوئی تو گویا پہلی بار پورا علاقہ سکون کی سانس لے سکا۔ ہزاروں فلسطینی اپنے
بچوں اور باقی سامان کے ساتھ غزہ کی طرف واپس آئے ۔ شیخ ردوان علاقہ کے اسما عیل زائدہ جب اپنے گھر پہنچے تو ان کی آنکھوں میں کرب صاف محسوس ہورہا تھا۔ انھوں نے کہا ’’میرے گھر کا صرف نشان ملا ہے ۔پورا محلہ ملبے میں دفن ہے۔ آس پاس کے مکان منہدم ہوچکے ہیں۔بجلی اور پانی ٹھپ ہے اور سڑکیں قبرستان جیسی لگ رہی ہیں۔ ‘‘
جی ہاں! یہ غزہ ہے جہاں صدرٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ تسلیم کئے جانے کے بعد امن قائم ہونے کے آثار ہیں۔ ٹرمپ نے اسے’ امن منصوبے‘ کا نام اس لئے دیا تھا کہ انھیں امن کا نوبل انعام مل سکے ، لیکن ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور یہ انعام وینزویلا کی جہدکارمریا مچڈو کو دیا گیا ۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں آئی کمی کو دنیا نے ’جنگ بندی ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ جنگ کہاں تھی، یہ تو ننگی جارحیت تھی جس کے نتیجے میں غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی ہے۔ یہاں ایک طرف اسرائیل کی ننگی جارحیت تھی جبکہ دوسری طرف نہتے اور بے قصور فلسطینی عوام۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں گزشتہ دوسال کے دوران 67ہزار سے زیادہ بے گناہ شہید ہوئے ہیں ، جن میں تیس فیصد بچے ہیں جن کی تعداد 18ہزار سے زیادہ ہے ۔ بیس ہزار بچے یتیم ہوگئے ہیں ، دولاکھ کے قریب لوگ زخمی ہیں ۔ہسپتال بند ہوچکے ہیں ، جو کھلے ہیں وہاں بھی دواؤں اور آلات کی زبردست کمی ہے۔غزہ میں زندگی کو واپس آنے میں کتنا وقت لگے گا یہ کہنا مشکل ہے ۔غزہ کی80 فیصد عمارتیں،90فیصد اسکول اور 90فیصد کا شت کی زمین تباہ ہوچکی ہے جبکہ 54ملین ٹن سے زیادہ عمارتوں کا ملبہ ہے،جسے ہٹانے میں دس سال لگیں گے۔
سات اکتوبر2023کو شروع ہوئی بربریت کے نتیجے میں غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ان دوبرسوں میں ایسا کون سا ظلم ہے جو ظالم وجابر اسرائیل نے نہتے اور بے قصور فلسطینیوں پر نہ کیا ہو۔ وہاں کی بیس لاکھ سے زیادہ آبادی جوزندگی بسر کررہی ہے ، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی ذرائع سے جو اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ، وہ اتنی ناقص اور ادھوری ہیں کہ ان سے غزہ کی پوری تصویر نہیں اُبھرتی۔ ان دو برسوں کے دوران غزہ کے باشندوں پر جو کچھ بیتی ہے، اسے پوری طرح لفظوںمیں بیان کرنا مشکل ہے۔ یوں بھی کسی المیہ کو بیان کرنے کے لئے لفظ ناکافی ہوتے ہیں اور ان لفظوں کی اہمیت اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب ان پر پہرے بٹھادئیے گئے ہوں۔ گزشتہ دوسال کے عرصے میں غزہ کی سچی رپورٹنگ کرنے والے 100سے زیادہ صحافیوں کو قتل کردیا گیا ہے ۔ بعض صحافیوں کے پورے خاندان موت کی تاریک وادیوں میں پہنچا دئیے گئے ہیں۔اتنی ہی تعداد میں اقوام متحدہ کے کارکنوں کی موت ہوئی ہے۔
غزہ صرف اعداد وشمار کا نام نہیں ہے۔ اُس جرأت اور بے باکی کا بھی نام ہے جو مشکل ترین وقت میں وہاں کے باشندوں نے دکھائی ہے۔ اتنے ظلم وستم اور جبرواستبداد کے بعد ایک بھی ایسا فلسطینی نہیں ملا ،جس نے رحم کی بھیک مانگی ہو۔ یہ اپنے مادروطن کے لئے لڑنے کی ایک ایسی سنہری تاریخ ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔
انہوں نے موت کو گلے لگانا پسندکیا ،لیکن ظالم کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے۔ غزہ کے باشندوں نے ان دوبرسوں میں دنیا کو یہی پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے وطن اور مسجد اقصیٰ کا دفاع کرتے رہیں گے۔
حماس کا کہنا ہے کہ’ ۷؍اکتوبر کے بعد گزرنے والے دوبرس تکلیف ، ناانصافی اور ظلم سے عبارت تھے۔‘حماس نے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں نہتے عام شہریوں کی اموات پر شرمناک بین الاقوامی خاموشی دیکھی گئی ۔‘اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ دوبرس کے دوران جبکہ درندہ صفت اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی ، دنیا کے کئی ممالک مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رہے اور اس میں سب سے مذموم کردارامریکہ نے ادا کیا ، جو اقوام متحدہ میں پیش ہونے والے غزہ جنگ بندی کی ہر تجویز کو سبو تاژ کرتا رہا ۔ امریکہ کی حمایت سے ہی اسرائیل نے غزہ میں جہنم تخلیق کیا ۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی اندھی حمایت کی ہو ۔ جب سے اسرائیل کا ناجائز وجود عمل میں آیا ہے تب سے مسلسل امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف پلیٹ فارموں پر جب اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پیش ہوئی تو امریکہ نے اسے پوری بے شرمی کے ساتھ ویٹو کردیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسرائیل کا ناجائز وجود پوری طرح امریکہ کا مرہون منت ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب وہی امریکہ امن کا پیامبر بن کر سامنے آیا ہے ۔ بے مثال تباہی وبربادی کے بعد اب صدر ٹرمپ نے جو بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے ، اس کے عوض وہ امن کے نوبل انعام کے طلب گار تھے مگر ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوئی ۔ہرچند کہ امن منصوبے پر غور کرنے کے لیے حماس کو مدعو کیا گیا ، لیکن اس کا سب سے بڑا مقصد یرغمال شدہ اسرائیلوں کو آزاد کرانا تھا ، لیکن اس منصوبے میں حماس کو بے دست وپاکرنے کی تمام تجاویز موجود ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ7؍اکتوبر2023 کوجب اسرائیل نے غزہ پر آگ برسانی شروع کی تو وہاں حماس کا ہی کنٹرول تھا ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ سمیت کئی ملکوں نے اسرائیل کی درندگی اور بربریت پر آنکھیں موندیں تو وہیں ان ملکوں کے عوام فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور اسرائیلی بربریت کے خلاف سڑکوں پر اترے ہیں ۔انھوں نے بے مثال مظاہروں کے ذریعہ ظالموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسانیت زندہ ہے۔ یوروپ ، امریکہ ، لاطینی امریکہ ، افریقہ ، آسٹریلیا ، جنوبی ایشیا ء اور وسطی ایشیاء سمیت ہر ملک ، ہرشہر ، ہر سڑک پر غزہ میں رواں صدی کے ہولناک ترین مظالم کے خلاف آوازیں اٹھیں۔رواں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جب جنگی مجرم نتن یاہوخطاب کے لیے ڈائس پر آیا تو اجلاس میں شریک مسلم ملکوں سمیت دنیا کے بیشتر سربراہوں نے اس کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور اسمبلی سے باہر چلے گئے ۔ دوسری جانب کرہ ارض کے مشرق ومغرب میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی آزادی کے حق میں مظاہرے ہوئے اور جنگی مجرم نتن یاہو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت نے پچھلے سال نتن یاہو اور ان کے سابق وزیردفاع یوآؤ گلانٹ کے غزہ میں جنگی جرائم کی بنیادپر گرفتاری وارنٹ جاری کئے تھے ۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کئی یوروپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے جبکہ اسپین نے اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل روک دی ہے۔ کئی ملک ایسے بھی جنھوں نے غزہ میں درندگی اور بربریت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ لئے ہیں۔اس طرح فلسطینیوں پر بے تحاشاظلم وستم کے نتیجے میں اسرائیل کودنیا بھر میں رسوائی اور تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑاہے۔اب جبکہ نام نہاد جنگ بندی کا نفاذ ہوگیا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اپنی بات پر کب تک قائم رہے گا۔ فی الحال غزہ کے کھنڈرات میں زندگی کے آثار واپس آگئے ہیں۔