عظمیٰ نیوزڈیسک
تل ابیب//غزہ میں جنگ بندی کے بعد 5 ہزار اراکین والے ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ (انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس) میں ترکیہ کی فوج کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل نے اس سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترکیہ کے فوجیوں کی موجودگی کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ امریکی خارجہ سکریٹری مارکو روبیو نے کہا کہ فورس میں صرف وہی ملک شامل ہوں گے جن پر اسرائیل بھروسہ کرتا ہے۔ یہ فورس غزہ میں جنگ کے بعد سیکورٹی وقفہ کو بھرنے اور تشکیل نو کے کاموں کو بہتر انداز سے زمین پر اتارنے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ترکیہ نے فوجی بھیجنے کی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی شام بحران اور ترکیہ کے حماس کے ساتھ قریبی روابط کے سبب پہلے سے ہی بڑھی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے مطابق ترکیہ کے صدر طیب اردوان حماس اور اخوان المسلمین کے بہت قریب ہیں، اس لیے ان کے فوجیوں کو غزہ میں تعینات کرنا درست نہیں ہے۔ اردوآن نا کہنا ہے کہ امریکہ کو اسرائیل پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ وہ ’ٹرمپ امن منصوبہ‘ کے تحت کیے گئے وعدوں پر عمل کرے۔ بہرحال، غزہ میں استحکام فورس کی قیادت غالباً مصر کے ہاتھ میں ہوگی۔ انڈونیشیا اور یو اے ای جیسے دیگر ممالک کی افواج بھی اس میں تعاون دیں گی۔ حالانکہ ان ممالک نے فورس کو اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے تحت منظوری دینے کی خواہش ظاہر کی ہے، بھلے ہی یہ کوئی آفیشیل اقوام متحدہ امن فوج نہ ہو۔واضح رہے کہ بین الاقوامی استحکام فورس کا اہم کام حماس کو غیر فعال کرنا اور غزہ میں فلسطینی حکومت قائم کرنا ہوگا۔ فورس کا کوآرڈنیشن امریکی قیادت والی سول ملٹری کو-آرڈنیشن سنٹر (سی ایم سی سی) کے ذریعہ سے ہوگا۔ یہ مرکز جنوبی اسرائیل میں واقع ہے اور اس میں برطانیہ، فرانس، اردن اور یو اے ای کے مشیر شامل ہیں۔ سی ایم سی سی کا کام غزہ میں امداد اور سیکورٹی کوآرڈنیشن کرنا بھی ہے، حالانکہ اہم امدادی راستہ بند ہونے کے سبب چیلنجز برقرار ہیں۔