یو این آئی
واشنگٹن// امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی شام اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں 24 گھنٹے کے دوران دوسری ملاقات کی ہے ، جس میں غزہ میں ممکنہ جنگ بندی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔یہ غیر اعلانیہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی، جس میں میڈیا کو رسائی نہیں دی گئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا مرکزی نکتہ غزہ میں قید مغویوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششیں تھیں، انہوں نے زور دیا کہ وہ حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ملاقات کے دوران ایران پر ہماری عظیم فتح کے اثرات اور امکانات پر بھی گفتگو ہوئی، یہ صدر ٹرمپ کے 20 جنوری کو دوسری مدت کا آغاز کرنے کے بعد نیتن یاہو کا تیسرا امریکا کا دورہ تھا۔الجزیرہ کے نمائندے مائیک ہنّا نے واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان تازہ ترین مذاکرات سے متعلق بہت ہی کم معلومات منظرِ عام پر آئی ہیں، اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اصل میں اندر کیا بات ہوئی۔انہوں نے مزید کہا ملاقات کا مکمل طور پر بند دروازوں کے پیچھے ہونا، کسی قسم کی واضح تفصیلات کا جاری نہ ہونا، اور صرف ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت تک جاری رہنا، یہ سب اس بات کا اشارہ دے سکتے ہیں کہ کوئی رکاوٹ حائل ہے ، کوئی ایسی چیز ہے جو ان دونوں رہنماؤں کے گزشتہ 24 گھنٹوں کے پراُمید بیانات کے برعکس صورتحال کو دھندلا رہی ہے ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات سے کچھ دیر قبل مشرقِ وسطیٰ کے لیے ان کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اشارہ دیا کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے اور واشنگٹن کو امید ہے کہ یہ معاہدہ ہفتے کے اختتام تک حتمی شکل اختیار کر لے گا۔اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان رکاوٹ بننے والے 4 میں سے 3 نکات حل ہو چکے ہیں اور اب صرف ایک مسئلہ باقی رہ گیا ہے ۔انہوں نے ٹرمپ کی کابینہ کے اجلاس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ‘ہم پرامید ہیں کہ اس ہفتے کے اختتام تک ایسا معاہدہ ہو جائے گا جو 60 دن کی جنگ بندی کی طرف لے جائے گا, 10 زندہ مغوی رہا کیے جائیں گے جبکہ نو جاں بحق افراد کی میتیں واپس کی جائیں گی’۔تاہم، اس کے فوراً بعد نیتن یاہو نے ریپبلکن پارٹی کی زیر قیادت ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر سے ملاقات کے دوران بیان دیا کہ اسرائیل کی مہم ابھی مکمل نہیں ہوئی، اگرچہ مذاکرات کار یقیناً جنگ بندی پر کام کر رہے ہیں۔