عجب ہے مرے شہر کی دستان
ہے لتھڑا ہوا خوں میں یہ گلستان
گھر ہے، نہ راہ ہے نہ کوئی پڑوس
بھڑکے ہے تاریکی میں پاسباں
ظلمت کی شب ہے، گھٹا چھائی ہے
گلے میں اٹک کر رہی ہے زباں
لبوںں پر معلق ہے آوازِحق
توسینوں پہ ہیں گولیوں کے نشاں
عزادار خلقِِ خدا چار سُو
ہر اک اور کربل کا دیکھو سماں
بہائے نہ اقبالؔ کیوں اشکِ خوں
ہے ہر زرہ وادی کا برقِ تپاں