ٹیک لگا کر بیٹھا ہوں میں جس بوڑھی دیوار کے ساتھ
خوف ہے مجھ کو مٹ نا جائوں اس کے ہر آثار کے ساتھ
غازہ پوڈر مل کر میں بھی آ جاتا ہوں سرخی میں
بک جاتا ہے چہرہ میرا سستے سے اخبار کے ساتھ
کیوں نا بڑھ کر میں پی جائوں تیرے نقلی سب تریاق
پھر تو دھوکا کر نہ پائے بستی میں بیمار کے ساتھ
ہوش کے ناخن لے تو سائیں کیوں یہ غوغا ڈالا ہے
دیکھ ، نہیں اب لے یہ چلتی نغمہ ٔ دربار کے ساتھ
کس نے تجھ کو سونپی بھائی سرداری اس بستی کی
سب کے سب محصور یہ ہوں گے اپنے اپنے یار کے ساتھ
مٹی کا اک ڈھیر سا ہو گا، اس پہ خوشبودار اک پھول
میرا پتہ بس اتنا ہی ہے قلعہ ٔ مسمار کے ساتھ
عمر تمامی شوق سے ہم نے ایک ہی تتلی پالی تھی
جب جب اس کو خواب میں دیکھا اُڑتی ہے اغیار کے ساتھ
جموں ، 9797580748