یہ آدمی تو کسی وقت بھی ہمارا نہ تھا
کسی بھی حال میں اس کا ہمیں سہارا نہ تھا
یہ لوگ جو کہ سمندر عبور کر نہ سکے
وہ اس لیے کہ انھوں نے خدا پکارا نہ تھا
امیر شہر کی مجلس سے میں نکالا گیا
ہر ایک حکم مجھے ماننا گوارا نہ تھا
مری طرف تو وہ باتیں بھی کی گئیں منسوب
مرے کلام میں جن کی طرف اشارہ نہ تھا
سبھی سمجھتے تھے حق کیا ہے اور باطل کیا
مگر کسی میں بھی سچ بولنے کا یارا نہ تھا
ہمیں تمنا کبھی بھی رہی نہ ساحل کی
ہمارے دل کو بھی حاصل کبھی کنارا نہ تھا
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380