شام کا سورج بھی معمارِ مقدر ہوگیا
میرا سایہ اُن کے گیسو کے برابر ہوگیا
کیا ہوا میں پتّی پتّی ہوگیا جو شاخ پر
میری خوشبو سے کوئی دِل تو معطر ہوگیا
جو کبھی پیاسا تھا اپنی ہی طرح سُنتے ہیں اب
وہ کسی پنگھٹ پہ پَنِہارن کی گاگر ہوگیا
ہوگیا مغرور بُت آذر کی نفرت کا شکار
ایک ٹھوکر کیا لگی وہ پھر سے پتھر ہوگیا
ڈھول تاشے بج رہے ہیں کس لئے کہ آج پھر
تیرگی سے روشنی کا مورچہ سَر ہوگیا
پھر خُدا کے گھر پہ چنگیزوں نے قبضہ کر لیا
پھر کوئی کعبہ کسی شیطان کا گھر ہوگیا
عشق میں ہم تو کسی تخصیص کے قائیل نہیں
جس جگہ سجدہ کیا محبوب کا در ہوگیا
کوئی بھی آندھی اِسے پنچھیؔ بُجھا سکتی نہیں
جو دِیا اب حق پرستی سے مُنّور ہوگیا
سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر۔ مالیر کوٹلہ روڈ۔ کھنہ 141401 پنجاب
موبائل نمبر؛941709668
غزلیات
مجھ کو راہِ شوق میں بے تابیٔ دِل جب ملے
پھر نہ زادِ راہ کی خواہش رہے کیا کب ملے
عہدہ و منصب سے دِل میں روشنی آتی نہیں
مُجھ کو بے ذوقِ نظر صد صاحبِ منصب ملے
یار ِجاں کی زُلفِ پیچاں یا شب دیجور ہے
روئے تابانِ مہِ کا مل میانِ شب ملے
جب خشیت سے خُدا کی نرم دل ہو جائیں گے
اَڑچنیں کا فور ہونگی کامرانی تب ملے
شومئی قسمت کہ مِلّت کا نہیں قائد کوئی
بے بدل اِک راہبر اسلام کو یارب ملے
مُشتاق کاشمیری
سرینگر،موبائل نمبر؛9596167104
خیرہ کرتا تھا نظر کو جو کبھی اے دوستو
خون میں لت پت مرا کیوں آج وہ کشمیر ہے
جو زمین مسکن بزرگوں، صوفیوں، سنتوں کی تھی
اب وہاں منظر ہر اک دل پاش اور دلگیر ہے
کام سارے ٹھپ پڑے ہیں اور دُکانیں بند ہیں
جو جہاں پر ہے پریشانی کا وہ نخچیر ہے
خوف و دہشت ہے مسلط ہر بشر، ہر فرد پر
خواہ وہ خاتون خانہ ہے، جواں ہے، پہر ہے
رو رہا حالات پر، یہ کہہ رہا ہے اب منیؔ
یا خُدا! مجھ کو بتا دے کیا یہی تقدیر ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہ
فون نمبر: 9596888463
میں شام ہوں ڈھلتی سی، وہ صبح سہانی ہے
میں کیسے بتائوں اب یہ کیسی کہانی ہے
وہ پھول کی اک ڈالی، ہر سُو ہے مہک اسکی
میں غم ہوں جدائی کا یہ اسکی نشانی ہے
وہ جس نے جلایا ہے دنیا کو مری ہر سُو
جلتے ہوئے صحرا میں ٹھہرا ہوا پانی ہے
میں پریم کا روگی ہوں رُک رُک کے چلیں سانسیں
وہ زیست کے دریاکی بے باک روانی ہے
گمنام ہوں میں مظہرؔ، پہچان تو ہے لیکن
کیا اُس نے بتانے کی دنیا کو یہ ٹھانی ہے
حمزہ مظہر
دریش کدل سرینگر،فون نمبر8825054483;
انٹر نیٹ
انٹر نٹ کے ساحل پر
میں جو سیر کو نکلا
فیس بک کے گلشن میں
سب کو گھومتا دیکھا
واٹس اپ کے جھرمٹ میں
سب کو جھومتا پایا
ہاٹ میل ویاہو پر
ریڈف وٹویٹر پر
گوگل ومیسنجر پر
مردو زن جواں بوڑھے
بے شعور بچے تک
سب کے سب اکٹھا تھے
کوئی ذکر میں مصروف
کوئی نغمہ سنجی میں
کوئی پڑھنے لکھنے میں
کوئی رقص ومستی میں
کوئی جام لینے میں
کوئی اس کو پینے میں
انٹر نٹ کے ساحل پر
حشر کا سمندر تھا
جو وہاں کا منظر تھا
اس کو دیکھ کر یہ دل
مضطرب تھا ششدر تھا
سب کے نامۂ اعمال
اپنے اپنے serverپر
انٹر نٹ کے محور پر
خود بخود برہنہ تھے
ایک ایک جنبش تک
saveتھی مقید تھی
لوگ تھے کہ غفلت میں
بے خودی کے عالم میں
ہر ضرر سے بے پرواہ
ہر نظر سے چھپ چھپ کر
شوق کے سمندر میں
ڈبکیاں لگاتے تھے
اور ڈوب جاتے تھے
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی ، اردو، اسلامک اسٹڈیز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
زمیں اِک خواب ہوتی ہے
مسلسل باد و باراں سے زمیں شاداب ہوتی ہے
زمیں خونِ جِگر سے ہی مگر سیراب ہوتی ہے
نِگاہِ شّوق سے دیکھیں اگر ہم اِس کی صورت کو
گہِ یہ مہر کی مورت گہِ مہتاب ہوتی ہے
کہیں مہ وش کہیں زہرہ جبینوں کا یہ مسکن ہے
کتابِ عشق کا یارو انوکھا باب ہوتی ہے
عجب نورِ سحر اِس کا، عجب رنگِ شفق اس کا
کہیں یہ شکل میں گُلشن، کہیں محراب ہوتی ہے
یہ مردم خیز آبادی، اسی کے دم سے پلتی ہے
کہیں تو فصل خشکی پر، کہیں بر آب ہوتی ہے
اسی کی کوکھ سے پیدا، ہوئے عابد و زاہد بھی
جو دیکھیں کچھ کو فاسد تو نگہ پُر آب ہوتی ہے
ہر اِک شیَ آنی جانی ہے، زمینِ زیست کی عُشاقؔ
برائے بشر وﷲ کیا، زمیں اِک خواب ہوتی ہے
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469
ہولی کے بعد
( کچھ قطعات جون ایلیا کی یاد میں)
پانی صابُن سے لڑ رہی ہو کیا
اپنا چہرہ رگڑ رہی ہو کیا
رنگ مَیں نے مَلے جو گالوں پر
ہنس کے اُن سے جھگڑ رہی ہو کیا
٭
دیکھتی ہو اِنہیں تُم ایسے کیا
صاف دھونے سے نہیں ہوتے کیا
تھک گئی ہو چھُڑا چھُڑا کے اِنہیں
رنگ میرے ہیں اِتنے پکّے کیا
٭
بھیڑ میں سکھیوں کی ہے تنہا کیا
چھا گیا تجھ پہ رنگ میرا کیا
میں ہی میں آتا ہُوں نظر تجھکو
حال تیرا ہُوا ہے ایسا کیا
٭
آئینے کے ہو تُم مُقابِل کیا
اب دھڑکتا ہے آنکھوں میں دِل کیا
رنگ میں نے لگائے جو اُن کا
چھُوٹنا ہو گیا ہے مُشکِل کیا
٭
میری چاہت نے تُم کو گھیرا کیا
ذہن و دِل میں اُگا سویرا کیا
مُسکراتی ہو دیکھ کر اِس کو
چھُو گیا دِل کو رنگ میرا کیا
٭
چاند بَن کر نِکل رہی ہو کیا
بھِیگے کپڑے بدل رہی ہو کیا
رنگ میرے تم اپنے تَن مَن پر
دیکھ کر کے مچل رہی ہو کیا