ڈاکٹر شمس کمال انجم
کوئی غم یا عذاب سا کچھ ہے
دل میں اک اضطراب سا کچھ ہے
میری آنکھوں یہ کچھ پتہ ہی نہ تھا
پیشِ منظر سراب سا کچھ ہے
خیمۂ دل میں روشنی ہے بہت
کیا یہاں ماہتاب سا کچھ ہے
اس کے جلوؤں سے ہے جہاں روشن
گویا وہ آفتاب سا کچھ ہے
میں نے کچھ بھی نہیں کہا اس کو
پھر بھی وہ لاجواب سا کچھ ہے
بانٹتا ہے وہ خوشبوؤں کی سبیل
لمس اس کا عذاب سا کچھ ہے
کچھ نہ کہہ کر وہ کہہ گئے سب کچھ
خامشی میں جواب سا کچھ ہے
ان تیکھی نظر میں پوشیدہ
میں نے دیکھا عتاب سا کچھ ہے
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
9419103564
حاضری
افسانہ
سید بشارت رسول
ٹرن ٹرن ۔ ۔ ۔!
ٹرن ٹرن ۔ ۔ ۔!
سحری کھا کر لوگ نہ خود سوتے ہیں اور نہ دوسروں کو سونے دیتے ہیں۔ ۔ ۔! یہ اتنی صبح کون ہوگا۔ ۔ ۔!
انعم نےبڑبڑاتے ہوے سرہانے رکھا فون اُٹھایا۔ ۔ ۔اور۔ ۔ ۔موبائیل کا فلپ کور ہٹا دیا۔ ۔ ۔!
موبائیل کی جلتی بجھتی اسکرین پر سیکشن آفیسر اکرم علی خان کا نام چمک رہا تھا۔ ۔ ۔!
ارے یہ تو اکرم صاحب کال کررہے ہیں۔ ۔ ۔اتنی صبح! سب خیریت ہونی چاہیے۔ ۔ ۔!
ہیلو۔ ۔ ۔ اسلام وعلیکم سر۔ ۔ ۔!
وعلیکم اسلام۔ ۔ ۔!
انعم۔ ۔ ۔؟
ہاں انعم بول رہا ہوں سر۔۔۔!
اتنی صبح سب خیریت ہے ۔ ۔ ۔ یہ آپ کی آواز کو کیا ہوا۔ ۔ ۔صحت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔ ۔ ۔؟
ایک ہی سانس میں انعم نے کئی سوال کر دیے۔ ۔ ۔!
ہاں ہاں سب خیریت ہے ۔ ۔ ۔یار سوال تم بہت کرتے ہو۔ ۔ ۔ ۔دوسری طرف سے ناگواریت کی اُٹھتی لہر نے انعم پر گھبراہٹ طاری کردی۔ ۔ ۔!
نہیں سر میرا مطلب وہ نہیں تھا۔ ۔ ۔بس آپکی فکر ہورہی تھی۔ ۔ ۔اسی لیے ۔ ۔ ۔انعم کی آواز میں ایک ارتعاش سا طاری ہوگیا۔ ۔ ۔!
اچھا ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے۔ ۔ ۔سنو وہ ۔ ۔ ۔ رات بھر شب بیداری کی ۔ ۔ ۔نوافل میں مصروف رہا۔ ۔ ۔ سحری کے بعد فجر کی نماز ادا کر کے ۔ ۔ ۔ بس ابھی ابھی بستر پر لیٹا ہوں۔ ۔ ۔ تھکاوٹ سخت محسوس ہورہی ہے۔ ۔ ۔سر بوجھل ہے ۔ ۔ ۔اس لئے ۔ ۔ ۔آج دفتر نہیں آسکتا۔ ۔ ۔ سوچا تمہیں بتا دوں۔ ۔ ۔بس میری حاضری لگا دینا۔ ۔ ۔اور۔ ۔ ۔ فون کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ ۔ ۔شاید فون کٹ گیا۔ ۔ ۔یا پھر کاٹ دیا گیا تھا۔ ۔ ۔!
معرفت-: گنگل اُوڑی
رابطہ نمبر-:(9797852221)
لگ گئی کس کی نظر اے ارض جنت کے چنار
بشیر آثم ؔکشمیری
کل تلک جو وادی ِ کشمیر تھی باغ و بہار
چاند تاروں سی حسیں فردوس جیسی کیف بار
اسکے نورانی مناظر دلفریب و با وقار
بھائی چارے کی بہاروں کا وہ عزمِ کہسار
لگ گئی کس کی نظر اے ارض جنت کے چنار
سب بہاروں کے تم ہی تھے افتخار و اعتبار
تھا یہاں ہر ایک کے مابین ربطِ خوشگوار
لوگ مل جل کر کیا کرتے تھے اپنا کاروبار
ذہن ِانسانی میں آیا پھر یکا یک انتشار
او ر خود اندھی سیاست تھی تعصب کی شکار
دل بہت مایوس چہرے زرد آنکھیں اشکبار
قید و بند کی سختیاں ہیں ، ہر طرف چیخ و پکار
بھائی چارے کی علامت تھے جو وہ مارے گئے
ہائے ان کی یاد میں ہیں اہل جنت سوگوار
بڑھ رہی ہے ’عید گاہ‘ میں روز قبروں کی قطار
کون پاگل کہہ رہا ہے اب کے آئی ہے بہار
ہر طرف بے کیفیاں ، بے چینیاں، بے تابیاں
اب تو ہر دن لے کے آتا ہے پیامِ سوگوار
جنکے کِھلنے سے بکھر جاتی تھی خوشبو ہر طرف
اب مسلسل رو ر ہے ہیں وہ نشاط و شالیمار
جن کے دم سے گلستاں رہتا تھا آثم ؔ کیف زا
جل چکے ہیں ظلم کی بجلی سے سب وہ برگ و بار
رابطہ؛باغبان پورہ لعل بازار حا ل جے پور
موبائل نمبر؛09829340787
[
نعتِ رسولِ مقبول
مجھے اپنا بنا لے تو خدارا! یا رسول اللہؐ
یہی ہے میرے جینے کا سہارا، یا رسول اللہؐ
بھٹکتا پھر رہا ہوں کوچے کوچے اب مدد کرلے
دکھا دے اب تو ہی مجھ کو کنارا یا رسول اللہؐ
نہ جانے منتظر ہوں کب سے تیری دید کی خاطر
دِکھا دے اپنا مکھڑا پیارا پیارا یا رسول اللہ
ذرا ہم خاکساروں کی خبر لے اب نبیؐ میرے
نہ ہو مشکل میں جینا اب ہمارا یا رسول اللہؐ
نہیں مجھ کو ذرا بھر بھی تمنا باغِ جنت کی
ہے بسملؔ میرا، کر دو اک اشارہ یا رسول اللہؐ
سید بسمل مرتضٰی
پیر محلہ شانگس اننت ناگ کشمیر
طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس
موبائل نمبر؛9596411285