عہدوپیمان کے دھاگے سے بندھے ہیں ہم لوگ
آپ بتلائیے اچھے کہ برے ہیں ہم لوگ
ہم نے سچائی کو سینے سے لگایا ہر دم
اس لیے طرز تخاطب میں کھرے ہیں ہم لوگ
خانۂ غم میں کہیں روشنی باقی نہ رہی
اس قدر بغض وتنفُّر سے بھرے ہیں ہم لوگ
ہم کسی راز کو سینے میں نہیں رکھ پاتے
ایسا لگتا ہے کہ مٹی کے گھڑے ہیں ہم لوگ
ہم جو احساسِ مروّت سے ہیں یکسر عاری
اے خدا! کون سی مٹی سے بنے ہیں ہم لوگ
ہم نے غیروں کو بھی ہمدرد ومسیحا جانا
سادہ لوحی میں کئی بارلُٹے ہیں ہم لوگ
اس حسیں دنیا میں احساس بہت ہوتا ہے
کس خرابات میں آباد ہوئے ہیں ہم لوگ
عصر حاضر میں ہمیں شمس ؔ غنیمت جانو!
سیلِ جدّت میں روایت سے جڑے ہیں ہم لوگ
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
رابطہ؛9086180380