اے جانِ وفادِل کو لُبھانے کے لئے آ
آجائو ذرا درد مٹانے کے لئے آ
اُجڑا ہے میرے دل کا چمن تند ہوا سے
اِک بار میرے گھر کو بسانے کے لئے آ
ویران پڑا ہے میرا کا شانۂ غربت
اُلفت کے اِس مندر کو سجانے کے لئے آ
ہم تم میں رہے دوری گوارا نہیں لیکن
حائل ہیں جو پردے وہ ہٹانے کے لئے آ
معصوم ؔسخنور کو وفاوئوں کا صلہ دے
آئوئو ۔۔۔ تو سَدا ساتھ نبھانے کے لئے آ
مشتاق احمد معصومؔ
حسینی کالونی، چھترگام، بڈگام
موبائل نمبر؛06005510692
بے شک گردشِ شام وسحردو
دِل کے ساتھ کُشادہ نظردو
جس میں گزرے عمر ہماری
رہنے کی خاطروہ گھردو
اس دنیاسے تنگ بہت ہوں
میں اُڑ جائوں ایسے پَردو
کہاں ہوں میں، معلوم ہواِتنا
مجھ کومیری کوئی خبردو
میرے لئے احسان یہ ہوگا
غموں سے میرے دِل کوبھردو
نہیں کروں گاکوئی شکوہ
دِل میں ہو،جو شوق سے کردو
جس سے بنے ہتاشؔ دوانہ
اُس پر ایسا جادو کردو
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
دل کی دھڑکن نغمہ بن جا
پیاس بڑھی ہے چشمہ بن جا
صدیوں کی بے چینی ہےیہ
نئی صبح کا مُژدہ بن جا
جھوم رہا ہے سارا عالم
سنگ میرے دیوانہ بن جا
کیسی سوچ میں گُم ہوتے ہو
کبھی کبھی لاپرواہ بن جا
دُھندلی دھندلی سی یہ فضاء ہے!
روشن روشن لمحہ بن جا
درد میرے سینے کے، لے سُن!
اب کی بار نہ صدمہ بن جا
لکھتا ہے کیا نوازؔ یہ سُن لے
میرے لفظ کا جذبہ بن جا
شہنواز احمد
شالی پورہ،کولگام
موبائل نمبر؛9596393985
’’ جو جان سے پیارا ہوتا ہے‘‘
وہ یار نِیارا ہو تا ہے
جو پاس کھڑی ہو تنہائی
تو عشق سہارا ہو تا ہے
پی لیگا سمندر کوئی کیوں
یہ آب جو کھارا ہوتا ہے
وہ جیت کو کہتا ہے اپنی
جو عشق میں ہارا ہوتا ہے
جو پوچھا منیؔ سے حالـ، کہا
ہے شُکر گُزارا ہوتا ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9596888463
سسکیاں
یہ کیسے ولولے یہ کیسی سسکیاں
یہ آہ وزاری یہ بے چینیاں
مرے شہر میں کیسا و بال ہے
سنا ہے ترے شہر میں بھی یہی حال ہے
یہ جو بچے بیمار ہیں
سُنا ہے بڑوں کا بھی یہی حال ہے
میرے حالات کے قصے بے شمار ہیں
سُنا ہے ترے شہر کا بھی یہی حال ہے
گھر گھر دیکھو کیا مقام ہے
سب لوگوں کا گھر پر ہی قیام ہے
بے حال ہیں لوگ مرے شہر میں
سنا ہے ترے شہر کا بھی یہی حال ہے
گناہوں کی شاید کہانی عام ہے
تبھی تو قہر یہ سارے عام ہیں
اللہ سے رجوع کا سوال ہے
سنا ہے ترے شہر کا بھی یہی حال ہے
ثمینہ مشتاق خان
خانیار، سرینگر