ٹوٹ کر کتنا گرا ہے آئینہ ملبے میں ہے
کتنی جانیں اور کتنا گھر جلا ملبے میں ہے
کتنے معصوموں کی چیخیں کتنی خوشیاں ہیں نہاں
کتنے ارمانوں کا خوں ہے ہوگیا ملبے میں ہے
لو تجاہل عرفانہ سے نہ ہرگز کام تم
انسانیت کے قتل کا سارا پتہ ملبے میں ہے
کس نے محلوں کو اجاڑا کس نے لوٹی آبرو
جاکے ویرانے سے پوچھو سب چھپا ملبے میں ہے
یہ نہ پوچھو کہ صدائے الاماں دیتا ہے کون؟
گونجتی ہے روز و شب جو بھی صدا ملبے میں ہے
جگنوؤں کی جگمگاہٹ چھینی کس نے روشنی
بجھ گیا عادل جہاں میں جو دیا ملبے میں ہے
آج بھی ملبے میں ہے ہر سو دبی چنگاریاں
آج بھی ہر سمت شعلہ جا بہ جا ملبے میں ہے
ڈاکٹر نصیر احمد عادل
مہرولی،کمتول، دربھنگہ، بہار
[
مری آنکھوں میں ہر دن وہ نئے سپنے سجاتا ہے
نئی راہوں پہ چلنے کا ہنر مجھ کو سکھاتا ہے۔
عجب یہ حوصلہ اسکا،کہ میں بےزار ہوں اور وہ
نیا اک دیپ چاہت کا مرے دل میں جلاتا ہے
عنایت ہے خدا کی اور عجب اسکی محبت ہے
کہ وہ میرے گناہوں کو زمانے سے چُھپاتا ہے
قیامت مجھ پہ ٹوٹی ہے تڑپتا دیکھ بسمل کو
مجھے انجام میرا خون کے آنسوں رلاتا ہے
مٹائے جو نہیں مٹتا حسیں ایسا گماں ہے وہ
اُسے جتنا بھلاتا ہوں وہ اتنا یاد آتا ہے
نہیں مٹتے ہیں داغِ دل بہا کر اشک بھی محسن
مرا ماضی مجھےاپنی طرف پھر کھینچ لاتا ہے
محسن کشمیری
اونہ گام، بانڈی پورہ، کشمیر
موبائل نمبر؛ 9596782622
جب ماناکہ مُجھے اپنابنائے گاکوئی
وقتِمشکل بھی میراساتھ نبھائے گاکوئی
میرے اشعارسے تسکیں اُسے ملتی ہے
حال جودِل کاہے وہ مُجھے سنائے گاکوئی
آج وہ بھول گیاکس طرح ہم ملتے تھے
کیاکبھی اُس کومیری یاد دِلائے گاکوئی
کیاکوئی تڑپے گا اِس زندگی میں میرے لئے
میری یادوں کوکبھی دِل میں بسائے گاکوئی
ظاہراً وہ بُہت اظہار کیاکرتاہے
کیاکبھی مُجھ سے محبت بھی نبھائے گاکوئی
جب بھی پہلومیں مجھے بٹھائے گاکوئی
اِس سے انکارنہیں جھوم ساجائے گاکوئی
کیاکہوں زندگی یہ کٹ گئی ہے ہتاشؔ
مجھ کوواپس میری وادی میں بُلائے گاکوئی
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
نہیں کوئی سوائے غم ہے میرا
یہی ساتھی یہی ہمدم ہے میرا
کسی کا جبر ہے یا ہے محبت
نہ جانے کیوں ہوا سر خم ہے میرا
کبھی اُٹھتے نہیں اب ہاتھ میرے
دعا پر اب بھروسہ کم ہے میرا
نہ کوئی آرزو خواہش نہ رنجش
ہوا سینے میں دل برہم ہے میرا
ثُمر روئی نہیں میں مدتوں سے
تو کیوں دامن ابھی تک نم ہے میرا
سحرش ثمر
فردوس نگر، علی گڑھ
پیدا تو کہیں ہوگا
کوئی میرؔ زمانے میں
موجود ابھی کچھ ہے تاثیر زمانے میں
پیدا تو کہیں ہوگا کوئی میرؔ زمانے میں
کیا عرشؔ و امیںؔ ہمدمؔ اُستادِ سُخن ٹھہرے
کیا اُن کو کریں غالبؔ تشہیر زمانے میں
ناخواندہ صفت قاری دیں دادِ سُخن اُن کو
یہ دیکھ کے ہیں خواندہ دِلگیر زمانے میں
کُچھ پاسِ ادب کر لو کچھ دورِ ولیؔ جانو
دیدے ہے ابھی جس کی تصویر زمانے میں
موجود ابھی ہندؔ میں ہیں کچھ سُخن کے رانجھے
اُردو ہے زباں جن کی اِک ہیرؔ زمانے میں
کرتے ہیں ابھی کچھ کچھ شعروں کی حِنا بندی
بیٹھے ہیں ابھی کچھ کچھ بے پیر زمانے میں
بسملؔ کے ترانوں کی یہ دین ہے آزادی
واپس جو ملی ہم کو جاگیر زمانے میں
ہم لوگ ہیں وابستہ اُس خِطّۂ مشرق سے
کہتا ہے جِسے عالم کشمیر زمانے میں
نشاطؔ گرامی سے یہ فیض مِلا عشاقؔ
یہ سُخن کہ اپنا ہے تقدیر زمانے میں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469