کھل گئے ہیں تمام میخانے
مست ہیں پی کے سارے دیوانے
ساری دنیا کھڑی ہے لائن میں
بعد مدت کھلے جو میخانے
شیخ جی خود بھی مست تھے پی کر
اور وہ سب کو لگے تھے بہکانے
جان والے ہی جانتے ہیں
کیسے دیتے ہیں جان پروانے
اتنا ناراض ہے خدا ہم سے
ہوگئے بند سب خدا خانے
اس ’’کرونا‘‘ کے بعد کیا ہوگا؟
لوگ کہتے ہیں، بس خدا جانے
پوچھئے جاکے آپ ’’کووِڈ‘‘ سے
کتنی جانوں کے لیں گے نذرانے
کوئی حیرت نہیں ہوئی مجھ کو
سن کے اپنوں سے زیر لب طعنے
’’ہے خبر گرم ان کے آنے کی‘‘
سج گئے شہر دل کے ویرانے
عقل سے کہتے تو سمجھتا بھی
کون جائے ہے دل کو سمجھانے
یہ صدی شمسؔ مختلف ہوگی
مختلف ہوں گے سارے پیمانے
ڈاکٹر شمسؔ کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9419103564
سراپا نور ہو کیف زا چمن تم ہو
شاخِ گُل تم ہو گلبدن تم ہو
لالہ و گُل ہو، شیریں دَہن تم ہو
نغمہ ہو، ساز ہو، شیریں سخن تم ہو
کہکشاں ہے تمہارے قدموں میں
جگمگاتا ہوا گگن تم ہو
بھیگی شب اور یہ کُوکتی کوئیل
دل یہ کہتا ہے نغمہ زن تم ہو
تم سے روشن ہے بزمِ اہلِ سخن
شمعِ نورِ انجمن تم ہو
دل اِسی کشمکش میں ہے اب تک
رہبر ہو راہزن تم ہو
رہِ عِشق میں تلاش کر آثمؔ
کوئی مجنوں ہو، کوہ کن تم ہو
بشیر آثم
باغبان پورہ، لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛9627860787
زندگی بے سبب روٹھ جایا نہ کر
دور رہ کر بھی تم یوں ستایا نہ کر
دل ہے ٹوٹا ہوا درد سے ہے بھرا
تو میرے درد دل کو بڑھایا نہ کر
راستہ گر جدا تو نے مجھ سے کیا
بے وجہ پھر مجھے یاد آیا نہ کر
اے میرے ہم نشیں تجھ کو میری قسم
میری دھڑکن کو ہر پل بڑھایا نہ کر
چاند شرما گیا چاندنی رات میں
ایسے چہرے سے پردہ ہٹایا نہ کر
سانس تھمنے لگی جان جانے لگی
اپنے خوگر کو ایسے رلایا نہ کر
پھول مرجھے ہوئے آج گلشنؔ میں ہے
ان گلوں کی مہک کو چرایا نہ کر
گلشنؔ?رشید لون
ریسرچ سکالر، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9596434034
نفس غالب اور انسانیت مغلوب ہے
ستم کیا ہے کہ ستم ہی محبوب ہے
غزل پہ غالب ہے عریانیت کا رنگ
فحش غذا کابھی غضب یہ اسلوب ہے
شہرت سے غرض ہے ادیبِ وقت کو
رضا محبوب کی یہاں کسے مطلوب ہے
الجھی رہے زلفوں میں تصویر شباب
غزل کا ہر شعر حْسن کا مشروب ہے
ترابیؔ دیکھ وہ تصویر ہے تحریر یار میں
کون ہے اچھا یہاں ہر کوئی مقلوب ہے
چودھری ذکریا مصطفائی ترابیؔ
اہرہ بل کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛7889864454
دل کو ایسا کبھی بھی گُماں تو نہ تھا
نااُمیدی جواب ہے سماں تو نہ تھا
جانے کس کی نظر لگ گئی دہر کو
زہرِ قاتل ہوا میں عیاں تو نہ تھا
دور کیوں ہوگئے پل میں اب سب کے سب
اس طرح پیار کا آشیاں تو نہ تھا
خوف ہے ہر طرف، چُھپ کے بیٹھے ہیں سب
آئیگا اِس طرف، یہ گماں تو نہ تھا
کھو گیا ہے سبھوں کے دلوں کا قرار
ایسا دیکھا کبھی امتحاں تو نہ تھا
ہاتھ اُٹھے ہمارے دعاء کے لئے
لوٹ آئی صدا، یہ گماں تو نہ تھا
ہے خموشی یہ کیسی کہ راشدؔ کبھی
خالی خانۂ شاہِ شہاں تو نہ تھا
راشد ؔاشرف
کرالہ پورہ، سرینگر،موبائل نمبر؛9622667105