اندھیری رات میں جگنو کی کمان کھینچتے ہیں
کہ ٹمٹماتےچراغوں کی جان کھینچتے ہیں
جفا کشیدہ شہر ہے سنبھل کے بات کرو
فراق دیدہ یہاں پر زبان کھینچتے ہیں
پہنچ نہ پاؤ گے افلاک کی بلندی پر
صیادِ اجل پروں کی اُڑان کھینچتے ہیں
تُمہی سکھا دو محبت کے ضابطے مجھ کو
تُمہارے شہر میں اُستاد کان کھینچتے ہیں
مُجھے چلا نہ سکے دو قدم بھی ساتھ اپنے
سُنا تھا ساتھ وہ اپنے جہان کھینچتے ہیں
ہمیں یقین ہے تُم تک پہنچ ہی جائیں گے
تُمہارے پاؤں کے مِٹتے نشان کھینچتے ہیں
تمام دولتیں رہ جائیں گی یہیں جاویدؔ
یہ لوگ کِس لئے تخت و مکان کھینچتے ہیں
سردارجاویدخان
مینڈھر پونچھ
موبائل نمبر؛9697440404
میرے چہرے پر کس نے رکھ دئیے الزام کے پتھر
بہت پوجے گئے ہیں یہ تمہارے نام کے پتھر
مقدس ہیں یہی تحریرکرتے ہیں حیاتِ نو
میرے ہی دل کی دھڑکن ہیں میرے یہ کام کے پتھر
میرے ہی بوجھ سے میرا سفینہ ڈوبتا جائے
میرے حصے میںکب آئے ہیں میرے رام کے پتھر
انہی آوارہ قدموں کی سخاوت ہے غزل میری
منقش ہیں میری راہوں میں ہر اک گام کے پتھر
سلیقے سے سجا رکھے ہیں اپنے پہلو سب ہم نے
ہماری صبح کے پتھر تمہاری شام کے پتھر
لبوں پر رکھ کے خاموشی بہت بے چین بیٹھے ہیں
نظر میں، ذہن میں برپا ہیں بس کہرام کے پتھر
میرے آغاز میں شامل میرے انجام کے پتھر
شام طالب
سشیل نگر گول گجرال روڑ،تالاب تلو جموں
موبائل نمبر؛9419787665
دہشت رہے گی طاری کب تک
ساتھ میں آہ وزاری کب تک
دولت کی اِک دوڑ لگی ہے
دُور ہو یہ بیماری کب تک
یُوں پتھربازی سے ہوگی
چارسُو مارا ماری کب تک
رواں رہے گی اِس صورت میں
لب پرآہ وزاری کب تک
جو حق میں قانون ہے کالا
رہے گا ایسے جاری کب تک
تُم ہی بولو رہے گی جاری
جینے سے بے زاری کب تک
گزر رہا ہوں ہتاشؔ میں جس سے
مٹے گی یہ لاچاری کب تک
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
صورتیں بنتی گئیں ہم آئینہ تکتے رہے
چشمِ نم دیدہ سے عکسِ برہنہ تکتے رہے
رفتہ رفتہ سبز پتوں کی طرح ارمانِ دل
شاخ سے ہو کر جدا خالی جگہ تکتے رہے
کیوں فرشتوں کی طرح اے صاحبِ سیف و قلم
لا ابالی یاں مآلِ حادثہ تکتے رہے
سوچتی اور جاگتی آنکھوں سے، دانائے دہر
کج لکیروں کو مقدر آزما تکتے رہے
تجربے کی آڑ میں کرتے ہیں کارِ خام سب
اہلِ حرفہ حاصلِ غارت شدہ تکتے رہے
سر کٹی امید آنکھوں میں چھپائے مے فشاں
بس شرابِ نام و نا آمیختہ تکتے رہے
کیوں اسے ابرار سارے صاحبِ عز و شرف
پردۂ غیرت اٹھا کر برملا تکتے رہے
خالد ابرار
چرارشریف کشمیر،موبائل نمبر؛9180822270
طوفان سے نکلنے کے آثار بھی نہیں
جو عزم ہم کریں گےتو دشوار بھی نہیں
سوکھی ہوئی کلی کو بڑی آس تھی مگر
آئی بہار لوٹ کے اس بار بھی نہیں
آلام کے بغیر ملا کیا بھلا مجھے
لیکن میں شہرِ شوق سے بیزار بھی نہیں
گلشن کے واسطے یوں لہو تک دیا مگر
آیا مرے نصیب کوئی خار بھی نہیں
آندھی سے لڑ سکے گی مری نائو کیا ذرا
قسمت، شکستہ ہاتھ میں پتوار بھی نہیں
آفات سے بچایا کبھی ڈھال بن گیا
بہتر کوئی دعا، سے ہے ہتھیار بھی نہیں
پوچھو نہ التفات مرے اک عزیز کی
دشمن نےاس قدر دیئے آزار بھی نہیں
عارفؔ وہی ہے تخت پہ اس شہر میں فقط
جو شخص آج صاحب ِ کردار بھی نہیں
جاوید عارف ؔ
پہانو ،شوپیان،کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
غموں کی غمگساری کیوں نہ ہوگی
دلوں کی دل آزاری کیوں نہ ہوگی
بیگانے اپنے ہی جب ہوگئے ، پھر
یہاں پر مارا ماری کیوں نہ ہوگی
شگوفے کھلنے سے پہلے ہی ٹوٹے
چمن میں آہ وزاری کیوں نہ ہوگی
پرندے اُڑتے اُڑتے کھوگئے ہیں
فضاء کو بیقراری کیوں نہ ہوگی
جنہوں نے شہر کا نقشہ بگاڑا
پھر ان پر سنگ باری کیوں نہ ہوگی
ہم جس کی گود میں پل کر بڑھے ہیں
وہ دھرتی ماں دُلاری کیوں نہ ہوگی
جنم بھومی ہماری ہے یہ روحیؔ
اماں یہ جاں سے پیاری کیوں نہ ہوگی
روحی جان
نوگام، سرینگر
موبائل نمبر؛9906940144
وہ پکارے گا تو گھر چھوڑ کے جانا ہوگا
دل نہ چاہے گا مگر چھوڑ کے جانا ہوگا
اس سے پہلے کہ یہ طوفان یہاں تک پہنچے
ہم پرندوں کو شجر چھوڑ کے جانا ہوگا
کیا خبر جنگ میں کمزور نہ پڑ جائے کہیں
بیچ رستے میں سِپر چھوڑ کے جانا ہو گا
ہم مسافر ہیں ہمارا نہیں مسکن کوئی
جب صدا ہوگی نگر چھوڑ کے جانا ہوگا
شہر اپنا،جسے عادت ہے فراوانی کی
درد کے زیرِ اثر چھوڑ کے جانا ہوگا
وہ تو کہتے ہیں مکاں چھوڑ کے جائو تابشؔ
چھوڑ جائیں گے اگر چھوڑ کے جانا ہوگا
جعفر تابشؔ
مغلمیدان، کشتواڑ
موبائل نمبر؛ 8492957626
دل اس قدر اداس ہے باہر نکل نہ جائے
اشکوں میں اتنی آگ ہے چہرا پگھل نہ جائے
بازو میں اس کے زور بھی ہے دل میں جوش بھی
اس کو سنبھال لو کہیں کونپل مسل نہ جائے
تا عمر تیرا ہاتھ نہ چھوڑوں گا خلوتی
اب موقع دیکھ کر کہیں تو بھی نکل نہ جائے
جو پالیا ہے اس کو ہی رکھتا ہوں میں عزیز
خوابوں کی ضد میں ہاتھ سے میرے اصل نہ جائے
ڈرتا ہوں ، یاد آتا ہے اس کا وہ چھوڑنا
باہر ہوا بھی گھر سے میرے آج کل نہ جائے
آنکھوں کو آنسوؤں کا بنایا ہے اب مزار
راسخؔ پگھل کے آنکھ سے منظر بھی ڈھل نہ جائے
راسخؔ شاہد ||
بارہمولہ، کشمیر
ای میل؛[email protected]
دنیا کسی کے پیار میں جھوٹی لگی مجھے
کشتی یہ زندگی کی بھی ٹوٹی لگی مجھے
مل کر ملا نہیں ہے بہت دور آ گئے
قسمت یہاں بھی اپنی ہی پُھوٹی لگی مجھے
گُم سُم سا جگ لگا ہے مجھے جس قدر یہاں
شاید اسی لئےوہ کہ روٹھی لگی مجھے
دل میں چُھپا لیا ہے غمِ عاشقی مگر
سب کچھ چھپا کے مجھ سے وہ چھوٹی لگی مجھے
بس تو گیا ہے دل میں یہ لیکن محال تھا
اپنا بنا کے مجھ کو وہ لوٹی لگی مجھے
دنیا یہ جس سے آج مرا استفادہ ہے
اپنی گزشت عمر میں لُوٹی لگی مجھے
اسکی کتاب دل کی ہر اک بات دیکھ کر
موت و حیات کی یہ کسوٹی لگی مجھے
یاورؔحبیب ڈار
بڈھ کوٹ، ہندوارہ
لوٹ آتے ہیں تو گھر وہ بُلاتے ہیں اکثر
باتوں باتوں میں ہی ہم کو رُلاتے ہیں اکثر
کون لڑ سکتا یہاں حالات سے ہے اپنے
پھول کلیوں سے بنے گھر کر جلاتے ہیں اکثر
شہرِ ناشاد میں ہم کو تو کہیں گے اپنا
وہ جو اپنے ہیں وہی ہم کو مٹاتے ہیں اکثر
بیت صدیاں بھی گئیں، پر نہ ملی ہے منزل
مرگِ کوتاہ کا ہی وہ رستہ دکھاتے ہیں اکثر
روٹھی تقدیر سے ہی اُلجھے رہیںہم دن بھر
یاسؔ کو ہی وہ کیوں کھیل دکھاتے ہیں اکثر
یاسمینہ اقبال