دھڑکنیں قید ہیں زندان کی دیوار کے بیچ
شور کیسا ہے یہ زنجیر کی جھنکار کے بیچ
آئینہ دیکھ کے آ جائیں گے سب یاد تُمہیں
میرے نالے نہیں چھپتے کسی اخبار کے بیچ
خس وخاشاک سے آنچل کو بچا لو جاناں
خاک ہی خاک ہے اب تک دلِ مسمار کے بیچ
اے مسیحا تری آمد پہ ہی دم توڑ گیا
کوئی حسرت ہی نہیں تھی ترے بیمار کے بیچ
تُم تصّور میں بھی آتے ہو کئی حِصوں میں
کیوں اُترتے نہیں یکسر مرے اشعار کے بیچ
عین ممکن ہے کہ مل جائیں نصیبوں سے تمہیں
ہم وہ یوسف نہیں آ جائیں جو بازار کے بیچ
میں نے بھی رکھ دیا جاویدؔ جلا کر دل کو
حوصلہ دیکھئے کتنا ہے مرے یار کے بیچ
سردارجاویدؔخان
پتہ، مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
نہیں ممکن کہ سرکاریں رہینگی
جہاں نفرت کی دیواریں رہینگی
تعصب کا ہر اک بْت توڑنا ہے
چمکتی ورنہ تلواریں رہینگی
خدا خوفی کا عنصر مٹ گیا تو
نہیں محفوظ دستاریں رہینگی
مٹا جاتا ہے اب یہ جینز کلچر
دوپٹے اور شلواریں رہینگی
ہر اک بیٹی کو ہونا پا بہ زنجیر
کہاں پائل کی جھنکاریں رہینگی
ہوا ہو جائینگے سب رنگ بسملؔ
چمن میں کب یہ مہکاریں رہینگی
خورشید بسملؔ
تھنہ منْڈی راجوری جموں کشمیر
موبائل نمبر؛9086395095
میرا ہمدم الگ ہے اور وہ سب سے نرالاہے
بہت خودسر ہے وہ پھر بھی مرے دل کا اُجالاہے
کہانی اس نے جب مجھ کو سنائی اپنی اُلفت کی
مری پلکوں نے مشکل سے ان اشکوں کو سنبھالاہے
جو مظلوموں سے ہمدردی جتاتا پھرتا ہے لوگو
ستم کی بستیوں میں تو اُسی کا بول بالا ہے
نہ روتے ہیں کسی کے سامنے نہ غم دکھاتے ہیں
ہر اک ہمدرد کا چہرہ، یہاں پہ دیکھا بھالا ہے
وہ راہیں چھوڑدوں چلنا، ہیںجن پر مشکلیں درپیش
یہ اچھا آپ نے اس مسئلے کا حل نکالا ہے
نظر انداز کر کے جو بہت معصوم بنتا ہے
حقیقت ہے کہ ایسے شخص کا تو دل ہی کالا ہے
جو ہر دم بولتے رہنے کو اپنا حق سمجھتا تھا
ثمرؔ کافی دنوں سے اس کے ہونٹوں پر بھی تالاہے
سحرش ثمرؔ
فردوس نگر۔ علی گڑھ
طرح مصرع۔
رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ۔ فرید پربتی
غمِ الفت عنایت کر گیا وہ
مداوائے محبت کر گیا وہ
مری ہر بات پر تلخی سجاکر
رفاقت کو سیاست کر گیا وہ
وہ اک گھر سے یوں سونا سونا نکلا
کہ ہر گھر میں قیامت کر گیا وہ
غزل کو وادی میں پرواں چڑھاکر
رباعی کی حفاظت کر گیا وہ
مرے پھولوں کو شاخوں سے جداکر
مرے ماتم میں شرکت کر گیا وہ
بچھڑ کے تجھ سے ساعد حمزہ مظہرؔ
ترے ظن کو حقیقت کر گیا وہ
ساعد حمزہ مظہرؔ
سرسید آباد بمنہ سرینگر
موبائل نمبر؛8825054483
سنسان ہوا یارو بازار میرے دل کا
روٹھا ہوا ہے جب سے وہ یار میرے دل کا
اپنوں نے مگر جلدی کی یوں ہی بدلنے میں
پوچھا نہ کبھی قصہ اک بار میرے دل کا
اب حال جدائی میں مت پوچھئے کہ کیا ہے
ویران ہوا یارو گلزار میرے دل کا
کیونکر نہ بھریں آہیں، کیونکر نہ بہیں آنسوں
اس نے ہی نہیں سمجھا آزار میرے دل کا
یہ حکمِ مقدر تھا یا بے بسی کا ڈر تھا
بدلا ہے بہت جلدی وہ یار میرے دل کا
ہاں اس کی محبت میں یہ بھی ہے گوارا اب
کوئی نہ رہے طالبؔ غمخوار میرے دل کا
اعجاز طالبؔ
حول سرینگر
موبائل نمبر؛9906688498
دل یہ کہتا ہے اُس سے عداوت کی جائے
ہاں مگر یہ طے ہو کب محبت کی جائے
گاہے گاہے یہ پانی سے شکوہ کیا
ڈھوب کر اس میں کھل کے بغاوت کی جائے
جس کی تعمیر میں کئ شب بیت جائیں
ایسے خواب کی بھلا کیا عبارت کی جائے
اتنے سورج اُگا رکھے ہیں دنیا نے
کیسے تیرگی کی اب وکالت کی جائے
خواب میرے سنبھلتے نہیں مجھ سے جب
کس طرح آنکھ کی پھر حفاظت کی جائے
سانس لینے کی مہلت نہیں دیتی تو
زندگی ! کس سے تیری شکایت کی جائے
راقمؔ حیدر
شالیمار، سرینگر، حال بنگلور
موبائل نمبر؛9906543569
مالی کی حرکتوں پہ قدغن ہے
اس لئے داغدار گلشن ہے
خون کرنا پڑا ہے خواہش کا
ہم یہ سمجھے تھے سہل جیون ہے
ہوش آتے ہی مشکلیں دیکھیں
میری خوشیوں کا عہد بچپن ہے
اُس کو کرنا ہے فیصلہ میرا
اس لیے تیز آج دھڑکن ہے
کتنے رازوں کو دفن ہم نے کیا
دل ہمارا بھی ایک مدفن ہے
ایک پل میں ،میں ہو گیا تیرا
تیرے چہرے پہ کتنا جوبن ہے
ہم کو کیا لینا شہر سے یارو
دشتِ ویراں میں اپنا مسکن ہے
میر خوشحال احمد
دلدار کرناہ
موبائل نمبر؛9622772188