نفرت سے دیکھئے نہ عداوت سے دیکھئے
انساں کو آدمی کی بصارت سے دیکھئے
انسان کی نظر کا ہے محتاج آدمی
انسان کی طرف کبھی فرصت سے دیکھئے
کتنا لہو بہایا گیا زیست کا یہاں
اُجڑے ہوئے دیار کو غیرت سے دیکھئے
سجدے میں سر جھکانا ہی ہے کیا عبادتیں
ماں باپ کی طرف بھی عبادت سے دیکھئے
ہر شب ہوا فریب کی چلتی ہے صاحبو
دستک کی آرزو کو بھی حسرت سے دیکھئے
الزام دوستی پہ لگانا فضول ہے
اب دوست کی طرف بھی ضرورت سے دیکھئے
سینے سے لگ گئی ہو نہ عادلؔ رقیب کے
اس شہر کی ہوا کو شکایت سے دیکھئے
اشرف عادلؔ
کشمیر یونیورسٹی، موبائل نمبر؛7780806455
اجلا دامن تیرا سیاہ کروں
روشنی آ تجھے تباہ کروں
آرزو ہے کہ اس کو چھونے کا
خوبصورت سا اک گناہ کروں
تونے توتر ک کرلیا رشتہ
اب کسے نذر اشک و آہ کروں
میں تجھے آج تک نہیں بھولا
خود تیری یاد کو گواہ کروں
وہ میری سمت دیکھتا ہی نہیں
کس طرح اس کے دل میں راہ کروں
تو کہاں چھپ گیا کہ ملتا نہیں
جستجو تیری گاہ گاہ کروں
درد تو دل میں ٹھہرا رہتا ہے
اشکوں سے کیسے میں نباہ کروں
جس کا ملنا ذکی ؔنہیں ممکن
میں کہ بس ایک اس کی چاہ کروں
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج۔بارہ بنکی،یوپی۔بھارت
موبائل نمبر؛7007368108
جواں ہے رات ستارو ذرا ٹھہر جاؤ
اثر نہ ایسے اُتارو ذرا ٹھہر جاؤ
ہے مانا صبر کا پیالہ چھلک چکا لیکن
عبث ہی جان نہ وارو ذرا ٹھہر جاؤ
ٹپک رہے ہو نگاہوں سے کاہے عجلت میں
بڑی ہے بات اشارو ذرا ٹھہر جاؤ
پکارتا ہے جنوں ڈوبتے کا وحشت میں
ستم شعار سہارو ذرا ٹھہر جاؤ
وفا کے شہر کی ہر اک گلی سے گزرا ہوں
سنو اے درد کے مارو ذرا ٹھہر جاؤ
ہیں چل پڑے جو رہِ رزمِ حق و باطل پر
انہیں کہو کہ دلارو ذرا ٹھہر جاؤ
بہت حسین ہے ابرارؔ دشت کا منظر
خزاں رسیدہ بہارو ذرا ٹھہر جاؤ
خالد ابرارؔ
چرارشریف کشمیر
موبائل نمبر؛ 8082227011
یہ پھولوں کاکتابوں میں چھپانا کون سمجھے گا
تیرا گھر سے نکلنے کا بہانہ کون سمجھے گا
زمانے کایہ شور و غل سمجھ میں آ بھی جائے تو
ہماری آنکھ کے نم کا فسانہ کون سمجھے گا
اگر اخبار ہے اپنا بچھونا اوڑھنا سب کچھ
غریبوں کا یہی ہے آشیانہ کون سمجھے گا
اِدھر میری طبیعت میں نہ شورش ہے نہ چنگاری
اُدھر تیرا مزاجِ عاشقانہ کون سمجھے گا
ضیاؔ مشکل پہیلی ہے جسے تم عشق کہتے ہو
یہ باتیں ہیں دیوانوں کی سیانہ کون سمجھے گا
امتیاز احمد ضیاؔء
پونچھ
موبائل نمبر؛ 9697618435
چلتے چلتے ہم کہاں تک آگئے
اک نئے ہی امتحاں تک آگئے
بھول جانا چاہتے تھے جن کو ہم
پھر وہ افسانے زباں تک آگئے
تھی تمنا تو بہاروں کی مگر
بخت غنچوں کا ،خزاں تک آگئے
درد کے صحرا کو طے کرتے ہوئے
آبلہ پا ہم مکاں تک آگئے
زندگی کی دھوپ سہتے روز و شب
در، دریچہ سائباںتک آگئے
ہم اندھیروں کے مسافر نامراد
جگنو اپنے کارواں تک آگئے
آج پھر شاہین گرتے گرتے ہم
ٹھوکروں کے درمیاں تک آگئے
رفعت آسیہ شاہین
وشاکھاپٹنم آندھراپردیش
موبائل نمبر؛9515605015