کسی سنگ سے دِل مِلانے چلے ہو
کہ اشکوں میں اپنے نہانے چلے ہو
نظر اُس کی جانب اُٹھانے چلے ہو
کہ سر دھڑ کی بازی لگانے چلے ہو
نہ مانے اگر وہ تو خود روٹھ جانا
جو روٹھے ہوئے کو منانے چلے ہو
جو ماں نے سکھائی زباں دودھ جیسی
اُسی کو ٹھکانے لگانے چلے ہو
نہیں جانتا جو وفا کے مُعانی
یقینِ وفا اُس پہ لانے چلے ہو
کبھی بھول جانا نہ تم اپنی ماں کو
وِدیشوں میں ڈالر کمانے چلے ہو
لکھا تھا جَسے تم نےاشکوں سے پنچھیؔ
وہی گیت پھر آج گانے چلے ہو
سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668
اپنی عزت کا کچھ خیال رکھو
ہے بڑی شے اسے سنبھال رکھو
لازمی ہے کہ زیست میں ہو رنگ
موت کا بھی تو کچھ خیال رکھو
بھوک کیا ہے کبھی پتہ نہ چلے
منھ میں لقمہ اگر حلال رکھو
یہ پڑوسی بھی کام آئیں گے
ان سے رشتہ سدا بحال رکھو
ایک دن خود ہنر بھی نکھرے گا
کچھ تو ہاتھوں میں تم کمال رکھو
لاؤ دریائے فن سے کچھ موتی
سامنے خلق کے مثال رکھو
فکر لوگوں کی کب تلک اؔحمد
اپنا بھی تم ذرا خیال رکھو
احمد اؔرسلان کشتواڑی
کمل محلہ کشتواڑ
موبائل نمبر؛7006882029
حادثے زیست میں ایسے بھی ہوا کرتے ہیں
زخم گہرےہی سہی دل پہ لگا کرتے ہیں
لوگ چہرے یہ سجا رکھتے ہیں سچائی کا غلاف
باتیں میٹھی ہیں مگر دل سے دغا کرتے ہیں
یہ ضروری تو نہیں کہ ہو قصّہ اپنا
ہم تو اوروں کا بھی درد لکھا کرتے ہیں
بات قسمت کی ہی ہوتی ہے یہ سچ ہے یارو
بھائو مٹی کے تو ہیرے بھی بِکاکرتے ہیں
نغمہ زن ہوتے ہیں خوشیوں کے ترانے دل میں
بھری محفل میں جب اپنے بھی دِکھا کرتے ہیں
وار ہر ایک بُھلاتے ہیں سمجھ کر لغزش
ہم کبھی بات کوئی کیا دل میں رکھا کرتے ہیں
وہ جہاں پر بھی رہیں، ساتھ رہیں گے جس کے
خوش رہیں سحرؔ وہ، ہم ہر وقت دعا کرتے ہیں
ثمینہ سحرؔ مرزا
بھڈون راجوری
کہاں کہاں کریں زمین پہ انتظامِ میت
خدا کرے کہ آسماں بھی ہو بنام میت
کیا لوگ تھے کہ راتوں رات میں بنا دیا یہ
زمیں سے آسمان تک بلند بامِ میت
مری ہر دکان پر سجی ہوئی ہیں لاشیں
اسی کو کہتے ہیں جناب احترامِ میت
ہزار چال چل کے بھی بچا نہ اُس کا قاتل
سہل نہیں ہے میری جان انتقامِ میت
کروں گا کیوں نہ یارِ رفتگان کا ذکر پاشاؔ
تبھی تو یار كہتے ہیں مجھے امامِ میت
احمد پاشا جی ؔ
بڈ کوٹ ہندوارہ
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردُو ہندوارہ کالج
حلقۂ یاراں میں اس قدر تیرا حباب نہ ہوتا
جو تاثیرِ سخن کے باہم یہ انداز خطاب نہ ہوتا
کون رکھتا اپنے صحن میں سجا کے کانٹوں کو
جو انکے ہمدم اک پرکشش گلاب نہ ہوتا
ہم سمیٹ لیتے جہاں کو ایک ہی مرکز ارتکاز پر
کاش اہلِ دیں کے افکار میں اضطراب نہ ہوتا
یوں تنہائیاں ہی اگر ہوتی مقصود اے انسان
پھر وقتِ نکاح قبول و ایجاب نہ ہوتا
ہم تو کب کے سپردِ خاک ہوئے ہوتے
اے غم گر نہ تیرا میرا حساب ہوتا
رو رو کے تجھے ہر کوئی سینے سے لگاتا اے عمرؔ
گر تیرے غموں پہ تیری شہرت کا حجاب نہ ہوتا
انجینئر عمر عطاری
غزل جو لکھ نہیں پائے وہی ہو تم غزل جاناں
صریرِ خامہ لُٹ جائے وہی ہو تم غزل جاناں
سلجھنے کا ابھی موقع نہ دینا تُم گھٹاؤں کو
جو فصلِ گُل سے الجھائے وہی ہو تم غزل جاناں
کئی منظر اٹھا لائے ترے پیکر کے آئینے
کہ سایہ خود سے ٹکرائے وہی ہو تم غزل جاناں
نئے صحرا بکھرتے ہیں جزیروں کے حوالوں سے
سمندر دھوپ نہلائے وہی ہو تم غزل جاناں
حروفِ کہکشاں ہم نے پِرونے کی جو کوشش کی
شعورِ رنگ گھبرائے وہی ہو تم غزل جاناں
تری فرقت میں شیداؔ نے اُگائے اشک کے موتی
وہی کاغذ پہ پھیلائے وہی ہو تم غزل جاناں
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،
موبائل نمبر؛9419045087