لوگ کانٹوں میں بھی پھولوں کی قبا چاہتے ہیں
ہم تو بس فرطِ محبت کا صلہ چاہتے ہیں
ٹِمٹما اُٹھے ہیں پھر سے تری یادوں کے چراغ
عین ممکن ہے کہ بُجھ جائیں ہوا چاہتےہیں
عمر اک جن کو مٹانے میں گزاری تُم نے
وہی جگنو تری محفل میں ضیاء چاہتے ہیں
غمِ فرقت میں اِن آنکھوں کو جلائے رکھا
اور وہ ہیں کہ مجھے اور جلا چاہتے ہیں
ہم نے کب تُجھ سے چمکتا ہوا سورج مانگا
ہم وہ پاگل ہیں کہ مٹی کا دیا چاہتے ہیں
ابنِ مریم یہ مداوا مرے کس کام کا ہے
زخم اک فصلِ بہاراں میں کُھلا چاہتے ہیں
کوئی حد بھی تو مقرر ہو سزا میں جاوید ؔ
فیصلہ تُجھ سے کوئی اور خدا چاہتے ہیں
سردارجاویدؔخان
میندھر پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
یاد ُس کی ایسے مُسکانے لگی ہے
دِل کے زخموں سے مہک آنے لگی ہے
لفظ اُس کے بن گئے ہیں میٹھی لوری
دردِ دِل کو نیند سی آنے لگی ہے
دُور ہوجائیں گی رشتوں سے وفائیں
جب محبت شرطیں منوانے لگی ہے
پہلے سمجھاتی تھی رازِ عشق تُو خود
اب تری تصویر سمجھانے لگی ہے
زُلفِ محبوبہ ہوئی ہے پھر سے برہم
اب یہ ناگن پھر سے بَل کھانے لگی ہے
پھول کاغذ کے نہیں یہ جان پاتے
اُن سے تتلی دُور کیوں جانے لگی ہے
بند کھڑکی کھول دی تیکھی ہوا نے
گھر میں اب تازہ ہوا آنے لگی ہے
باقی سب تو سِلوٹیں بِستر کی ٹھہریں
ایک حسرت اب بھی سِرہانے لگی ہے
تیرے در پرمیں نہیں آئوں گی پنچھیؔ
موت بھی جھوٹی قسم کھانے لگی ہے
سردار پنچھیؔ
نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ، پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668
غزلیات
کبھی جلتا بدن دیکھا، کبھی اُٹھتا دھواں پایا
گناہوں کے تسلسل سے عذابِ جاں رواں پایا
رموزِ بندگی ہم پر کُھلے اُن کے وسیلے سے
جنہیں عالم نے رحمت کا محیطِ بے کراں پایا
مقدر سے بھلا کیوں کر نہ اہلِ دل کریں شکوہ
کہ شمعِ جاں جلا کر بھی اندھیرا درمیاں پایا
مرا سر دیکھ کر بولے مرے احباب دشمن سے
یہ کس سرکش کا سر ہے جو سرِنوکِ سناں پایا
بہار آئی چمن میں اور اسیرانِ قفس نے بھی
نئی رُت کی ہوا پائی، نیا اِک پاسباں پایا
بھرم اپنی خردمندی کا ٹوٹا اُس گھڑی، جس دم
حبابِ دجلہ میں ہم نے سمندر کو نہاں پایا
نہ غنچہ کا، نہ بلبل کا، نہ ہی بادِبہاری کا
چمن میں تو فقط ہم نے نشانِ کُشتگاں پایا
خوداپنی ذات میں ہم قید ہوکر رہ گئے امجدؔ
دلِ ناداں کو ہم نے بھی وگرنہ خونچکاں پایا
امجد اشرف
شلوت سمبل سوناواری، بانڈی پورہ
موبائل نمبر؛ 7889440347
باہم دوستی کا یہ ڈھنگ کیا ہوا
برسوں جُدائی جھیلی تو سنگ کیا ہوا
قفس میں چمن کے بُلبلوں سے پوچھو
وہ نغمہ سرائی کیا، آہنگ کیا ہوا
لُٹی محفلِ سرور تو پتہ ہی نہ رہا
کہاں رکھا رباب تھا وہ چنگ کیا ہوا
حال یہ ہوا تو قوم ہی سے پوچھو
آزادی کی لڑی تھی جو جنگ، کیا ہوا؟
اب ڈور بھی لگی ہے پھولے نہیں سماتا
کاغذ کا ٹکڑا فائقؔ پتنگ کیا ہوا
عبدالمجید فائقؔاُودھمپوری
ادھمپور، جموںموبائل نمبر؛9682129775
جو اپنے حسن کا سکہ چلاتے تھے بہاروں پر
خزائیں حکمرانی کر رہی ہے ان چناروں پر
کچھ ایسی لگ رہی ہے دور تک یہ برف کی چادر
کسی بیوہ کا آنچل پڑ گیا ہو کوہساروں پر
چمن میں اس لئے ہیں جابجا یہ خون کے دھبّے
بھروسہ کر لیا تھا سادہ دل پھولوں نے خاروں پر
شکستِ فاش طوفانوں کو دی اکثر سفینوں نے
بہت سی کشتیاں ایسی تھیں جو ڈوبی کناروں پر
ان ہی پر میرے قدموں کے نشاں ہیں ثبت صدیوں سے
کمندیں ڈالنے نکلی ہے دنیا جن ستاروں پر
ادب کا اے ثمرؔ اہلِ ادب نے جب کیا سودا
کرم فرمائیاں ہونے لگی جاہل گنواروں پر
سحرش ثمر
فردوس نگر۔ علی گڑھ
لے آئی ہوا نئی رُت چمن میں آج
ہیں دل کے ویرانے جوبن میں آج
اشک شفق گوں موج در موج ہیں
رقص میں، دل کے آنگن میں آج
ملا ہے اس رنگ کو ایسا رنگ کہ
نہیں اب کوئی گماں دہن میں آج
کل تلک تو چمک رہا تھا ذرہ ذرہ
پر ہر ذرہ ہے یہاں الجھن میں آج
دل کی گلیوں میں بے حسی کا عالم
اور ہے مدہم رفتارِ لہو بدن میں آج
اگرچہ آئی ہے بہار مدتوں بعد لیکن
بلبل ہے پریشاں گلشن میں آج
بس ہے اک تری نظر خفا ہم سے
ورنہ کوئی کمی نہیں انجمن میں آج
شام ہوتے ہی دلکش یادیں آئی ہیں
مجھے ستانے تنہائی کے صحن میں آج
سانسیں ہیں عجب دھن میں شہریارؔ!
یہ کیسا ذکر چلا ہے دھڑکن میں آج
میر شہریار
سریگفوارہ۔ اننت ناگ