ہم کو اِس دشت کے اُس پار سُلا کر رکھنا
اپنی چھاؤں کی ہری شاخ جُھکا کر رکھنا
راہ اپنا بھی اندھیرا ہے بھٹکنے والا
اب دِیا طاق پہ تم بھی تو بُجھا کر رکھنا
دشتِ ہجراں سے گزارا ہوں میں جاتا لوگو
وصل زادوں سے گزارش ہے دعا کر رکھنا
ہنسنے والوں کا نیا شہرِ ستم ہے آگے
رسمِ چاکاں ہے علم غم کی اُٹھا کر رکھنا
سرد آہیں بھی نگلتی ہے زمانے کی تپش
درد انمول خزانہ ہے چُھپا کر رکھنا
گھیر لیتے ہیں محبت کے تقاضے غم کو
درد کی آگ رگِ جاں میں جُٹا کر رکھنا
لفظ خوشبو کو ترستے ہیں بچارے شیدؔا
ان کتابوں میں نئے پھول سُکھا کر رکھنا
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087
درد گر بیکراں نہیں ہوتا
کوئی گریہ کناں نہیں ہوتا
گر کرونا عیاں نہیں ہوتا
فاصلہ درمیاں نہیں ہوتا
درد ہو تو جبھی کراہتا ہوں
روز آہ و فغاں نہیں ہوتا
کچھ ہماری طرح بھی ہوتے ہیں
ہر کسی کا مکاں نہیں ہوتا
راز داں ہوتے ہیں وہ گھر اکثر
جن گھروں میں دھواں نہیں ہوتا
آئینہ دیکھا تو مِرے جیسا
کوئی تھا پر عیاں نہیں ہوتا
لوگ اکثر یہی بتاتے ہیں
میں جہاں ہوں وہاں نہیں ہوتا
اندرؔ سرازی
پریم نگر، ضلع ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731
قلم کی نمی میں روانی کہاں ہے
نیا زخم ہے جو جوانی کہاں ہے
پڑا ہے سفر کا یہ سودا بھی مہنگا
کہ نقشِ قدم کی نشانی کہاں ہے
نئی دھوپ ہے اور سایہ پُرانا
ہَوا میرے گھر کی سُہانی کہاں ہے
شجر کٹ گیا تو پرندہ نہ آیا
کہ بارِ جدائی گرانی کہاں ہے
کہاں تیرِ مژگاں کہاں زخم سوزاں
کتابی محبت بیانی کہاں ہے
یونسؔ ڈار
پلوامہ کشمیر
ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی
آغوشِ محبّت میں جل رہا تھا
وہ میرے ہی سانچے میں ڈھل رہا تھا
وہ جس کی زباں میں گرہ پڑی ہے
وہ لعلِ بدخشاں اُگل رہا تھا
وہ شداتِ تشنہ لبی گئی کیا؟
تُو آنکھ سے دریا اُبل رہا تھا
یہ ابلقِ لیل و نہار دوڑے
میں آبلہ پا جب سنبھل رہا تھا
میں کہُنہ خیالات میں تھا پاشاؔ
تیزی سے زمانہ بدل رہا تھا
احمد پاشا جی
بڈ کوٹ ہندوارہ
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردُو
ڈگری کالج ہندوارہ
ترے چاہنے والے کبھی کم نہ ہوں گے
ہائے کیا ستم ہے کہ بس ہم نہ ہوں گے
ترے غموں کا ہے گہرا ناطہ مجھ سے
یہ غم مر کے بھی کبھی کم نہ ہوں گے
ہم تو کب کے چھوڑ جاتے تری یہ محفل
پر کہیں ترے جیسے ہم فہم نہ ہوں گے
اگر کوئی مل بھی جائے کہیں ترے جیسا
پر وہ دیوانگی کے عالم نہ ہوں گے
آ بھی جا یہ موسم بھی ہے انتظار میں
ہاں پھر یہ ساون کے موسم نہ ہوں گے
ہاں اور بڑھتی جائے گی بے خودی لیکن
یہ غم کے سلسلے کسی طرح کم نہ ہوں گے
کھو چکا ہے مہتاب بھی بادلوں میں شہریار!
غزل تمام ہوگی پر یہ غم، رقم نہ ہوں گے
میر شہریار
سری گفوارہ اننت ناگ
اک تمنا ہے اک شرارا ہے
جسم سارا کہ پارا پارا ہے
مجھ کو دیتی ہے منزلوں کا پتا
آنکھ تیری ہے یا ستارا ہے
بہہ رہا ہوں میں تری یادوں میں
جھیل ڈل میں کوئی شکارا ہے
لکھ رہا ہوں میں وصیت اپنی
جو بھی میرا ہے سب تمہارا ہے
شہرِ دل میں مچا ہے ہنگامہ
ہر طرف تبصرہ تمہارا ہے
تو مکمل ہی چاہیے مجھ کو
اس سے کم میں نہیں گزارا ہے
آدمی کچھ الگ مزاج کا ہوں
سر جھکانا نہیں گوارا ہے
یہ ہے دریائے عشق اے عارفؔ
پار اس نے کسے اتارا ہے
عرفان عارف
اسسٹنٹ پروفیسر اردو،جموں
موبائل نمبر؛9682698032