خواب اچھا تھا مگر تعبیر سے خالی تھا جو
جیسے خط محبوب کا تحریر سےخالی تھا جو
سایۂ دیوار سے لٹکا ہوا اٹکا ہوا
عالمی نقشہ ملا کشمیر سے خالی تھا جو
آج بھی لائی تھی سطحِ آب پر موجِ چناب
دل کسی رانجھے کا لیکن ہیر سے خالی تھا جو
چھوڑ کر یہ کون دیوانہ گیا ہے یوں قفس
دشت میں اک ڈھانچہ زنجیر سے خالی تھا جو
سرد آہوں سے بھرا صندوق جب کھولا گیا
درد کا البم ملا تصویر سے خالی تھا جو
پھینک کر آئے جنوں کی وادیوں میں صبح تک
اپنے حصے کا نشہ تاثیر سے خالی تھا جو
ہم نے دل کی روشنی نیلام کردی رات بھر
جھونپڑا شیدؔا ترا چھت گیر سے خالی تھا جو
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087
زندگی کے سراب کا مارا
ہوں مسلسل عذاب کا مارا
پڑھ نہ پایا میں اس کی آنکھوں کو
عشق کے ہوں نصاب کا مارا
تیری زلفوں کی چھاؤں پا لے تو
کچھ جئے اضطراب کا مارا
میری عادت کھری کھری کہنا
وہ سوال و جواب کا مارا
خوف میں مبتلا حقیقت سے
ہو گیا ایک خواب کا مارا
اس کو بھاتی کہاں ہے آسائش
دل جو ہو اضطراب کا مارا
تم رہے خار خار چلاتے
یار میں تھا گلاب کا مارا
تھا وہ عارضؔ شمار رندوں میں
جس کو سمجھا شراب کا مارا
عارضؔؔ ارشاد
نوہٹہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006003386
شامِ وصال اب نہیں ، اُس کا جمال اب نہیں
اپنا عروج ہو نہ ہو ، اُس کا زوال اب نہیں
میری خوشی کے گرد میں، اُس کا ہی ہجر ہے سو ہے
ہجر مکینِ دل مگر ، دل کو ملال اب نہیں
اُس کی انا کا ہے سوال، میرا بھی ہے یہ امتحان
شامِ فراق کچھ نہ پوچھ ، ہم سے سوال اب نہیں
ہے آسماں کو آگ نے راکھ اور دھواں بنا دیا
میں بھی وہ سورج اب نہیں، تو بھی ہلال اب نہیں
کیسا خیال تھا بہم ، اپنی تلاش میں چلا
کیا وہ خیال اب نہیں ؟ کیوں وہ خیال اب نہیں؟
وقت ہاں! وہ میرا وقت ، جانے کہاں پہ رُک گیا
گردشیں اب کہاں کہ وہ ماہ ہ سال اب نہیں
شکوہ ترا نہ رنج و غم ، حال و بحال ، کچھ نہیں
صورتِ حال ہے کہ وہ صورتِ حال اب نہیں
مجھ کو نشاطِ لطف نے ایسے تباہ کر دیا
لذتِ فراق اب نہیں لذتِ وصال اب نہیں
مدتوں سے مرے وجود میں تو پڑا ہے نیم جان
تیرا خیال اب نہیں ! تیرا خیال اب نہیں !
راقمؔ حیدر
حیدریہ کالونی شالیمار سرینگر (حال بنگلور )
موبائل نمبر؛ 9906543569
ستم جب جب بھی وہ برپا کریں گے
اُسے ماتھے پہ ہم لکھا کریں گے
یہی داغِ ستم دھونے کی خاطِر
دیوانے جان کا سودا کریں گے
لگیں گےڈوبنے جب وہ بھنور میں
کنارے رہ کے ہم دیکھا کریں گے
حسیں ہو گا نظارا خوب وہ بھی
وہ جِس دم گِر کے پھر سنبھلا کریں گے
اگر موجود محفل میں رہے ہم
بہت سےراز ہم بھی وا کریں گر
کدورت کے چمن میں دیکھنا تُم
وفا کے پھول پھر مہکا کریں گے
یقیں جانو میری یادوں کے چشمے
تمہاری آنکھ سےپُھوٹا کریں گے
دلِ مضطر سمندر ہو گیا ہے
کریں گر وہ بُرا، اچھا کریں گے
اعجاز الحق مضطرؔ
کشتواڑ،جموں
موبائل نمبر؛9419121571
email : [email protected]
غزلیات
پت جھڑ میں موجِ تند نہ بکھرا گئی مجھے
کچھ دھوپ ہی بہار کی جھلسا گئی مجھے
حیرت نہیں کہ چاک قبائیں عدو نے کی
سازش کسی عزیز کی چونکا گئی مجھے
الزام میں نصیب کو دیتا رہا عبث
اپنی نظر ہی آپ یہاں کھا گئی مجھے
دو پل ملی نجات غموں کے حصار سے
صورت کوئی خیال میں بہلا گئی مجھے
احسان زندگی پہ کیے لاکھ بدلے میں
زنجیر اک قصور پہ پہنا گئی مجھے
آئی نہیں پلٹ کے بہاریں کبھی مگر
اک عمر انتظار میں تڑپا گئی مجھے
عارف ؔوکیل کس لیے ہے التماس کیا
مجرم میری ذات ہی ٹھہرا گئی مجھے
جاوید عارف ؔ
پہانو،شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
محبت حق پہ آئی تو ملے صدمے زمانے سے
اُصولِ عشق ہے توحید ڈرنا کیوں زمانے سے
دہکتی آگ پر چلنا مجھے تسلیم ہے جانم
اگر تم کو یقیں ہوگا مجھے یوں آزمانے سے
ہمارے عشق کا معیار اُفق شاہیں سا لگتا تھا
جُھلس جاتے زمانے جب ہمارے حق جتانے سے
تَوکُل وصل کا میں نے کیا ہے اِن چراغوں پر
نہیں چاہت تو آکے فیصلہ کرلے بُجھانے سے
محبت میں ستم کرنا کروں آئین میں شامل
مسرت تم کو ملتی ہے اگر مجھکو ستانے سے
پچھڑ کے بھی مرے تحفے ادا کرلیں گے اپنا حق
صنم راحت ملے گی جب تمہیں اُن کو جلانے سے
رَعُونت ساز مرتے ہیں مگر واپس نہیں آتے
وَلے تم حق ادا کرنا مجھے ہر دم بُلانے سے
اجازت چاہیے معصومؔ کو تم کو بُھلانے کی
سُکونِ قلب ہوگا اب تجھے دل سے مٹانے سے
معصوم فرمانؔ
طالب علم، ہرد شیوہ سوپور
موبائل نمبر؛6005809201
غمِ دہر سے فرصت ہی نہیں
اب وصل کی حسرت ہی نہیں
اب مجھے عادت سی ہو گئی
ہر شب، شبِ فرقت ہی نہیں
مل کر بھی فرحت ملی نہیں
حالِ دل کی کوئی حالت ہی نہیں
اب کہ وہ روگ ملا ہی نہیں
اب ہستئی آتش حسرت ہی نہیں
عادتِ مے کشی سعادت ہی مجھے
پر ترے سوا کوئی عادت ہی نہیں
میر شہریار
سریگفوارہ، اننت ناگ
ڈگری کالج بھدرواہ کے نام
کس قدر نم ہے مری آنکھ تجھے پانے پر
اور یہ دل تو مچلتا ہی چلا جاتا ہے
تیری جانب کو لپکتے ہوئے خوش رو چہرے
اس یقیں سے کہ انہیں تجھ سے سکوں حاصل ہو
ان کو امید ہے اس تری عطا کردی سے
کہ یہ سب لوٹ کے مایوس نہیں جائیں گے
دیکھتا بھی ہے کوئی رب کی عطائیں ، کہ نہیں
کس طرح اس نے تجھے علم کا زیور بخشا
ہو بیاں کیسے کہ یہ تیرے حسیں کوزہ گر
کس طرح خاک سے انسان بنا لیتے ہیں
جس جگہ طفلِ جہاں تھک کے ٹھہر جاتے ہوں
یہ وہاں اک نیا امکان بنا لیتے ہیں
کتنے دلکش ہیں ترے باغ میں کھلتے ہوئے پھول
جیسے بدلی سے کوئی چاند نکل آتا ہے
کیا کہوں کیسی ملائم ہے ترے لان کی گھاس
دل مچلتا ہوا اک پل میں بہل جاتا ہے
یہ ترے صحن میں سالوں سے کھڑا ایک چنار
تیرے بچوں کی نگاہوں کو سکوں دینے کو
سبز ہوتا ہے ، کبھی سرخ ہوا جاتا ہے
چار جانب سے پہاڑوں کی قطاروں میں گھرا
تو مجھے جان سے بڑھ کر مرے پیاروں میں سے ہے
رب سدا تجھ کو رکھے اپنی نگہبانی میں
ہر تموّج میں ہر اک جذر میں طغیانی میں
جعفر تابش(طالب علم ۔پی جی)
ڈگری کالج بھدرواہ،موبائل نمبر؛8492956626